استنبول (پی این آئی) پاکستان میں کئی سالوں سے مقیم، افغان مہاجر بچوں کے گمشده بچپن کے موضوع پہ بنی دستاویزی فلم Twinkling without Shining ٹوئنگلنگ ودآوٹ شائنگ (افغان بچپن کی تلاش میں) نے پانچویں سالانہGolden Wheat Awards گولڈن ویٹ ایوارڈز، استنبول، ترکی سے سپیشل جیوری ایوارڈ جیت لیا۔
اس دستاویزی فلم کے ہدایتکار اور پروڈیسرخالد حسن خان ہیں۔ فلم کی معاون پیشکش، محسن ایس جعفری اور سید اویس علی نے کی ہے۔ فلم بندی کے فرائض زاہد راجہ نے انجام دئیے ہیں۔ ان ماسکنگ، دی پینٹرسٹ، مرڈر آف مسٹک، گاڈ فادر آف سوکر کے بعد ٹوئنگلنگ ودآوٹ شائنگ، خالد حسن خان کی پانچویں ایوارڈ یافتہ کاوش ہے۔ وسط2021 سے 2022 کےدرمیان، مرقومہ بالا فلم پراجیکٹز، پاکستان کیلئے 15 پندرہ، بین الاقوامی ایوارڈز جیت چکے ہیں۔
ٹوئنگلنگ ودآوٹ شائنگ کو سندھ کے صوبائی دارلحکومت، کراچی میں عکسبند کیا گیا ہے۔ جہاں مختلف کاروباری اور رہائشی علاقوں کے فٹ پاتھ پہ عارضی، خود ساختہ پناہ گاہوں میں گزر بسر کرنے والے، نوعمر افغانی لڑکے، سڑکوں پہ کچرے کے ڈھیر سے،ردی چن کر اپنا روزگار کماتے ہیں۔
فلم میں شمالی افغانستان سے، فارسی بولنے والا، پندرہ سالہ درویزہ، اپنے سات سال کے بھائی، باری کے ساتھ لائٹ ہاؤس کے نزدیک، ایک فٹ پاتھ پر رہتا ہے۔ جبکہ جنوبی افغانستان کےعلاقے کا پشتون، زمان اپنے خاندان کے ساتھ، شہر کراچی کےریلوے اسٹیشن، چنیسر ہالٹ کےعقب میں،ایک جھونپڑی میں قیام پذیر ہے۔ یہ کم سن بچے، جن کی عمریں چھ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہیں، دوسرے افغان لڑکوں کی طرح بھوک، غربت اور جنگ کے باعث، پڑوسی ملک افغانستان سے ہجرت کرکے، پاکستان میں پناہ گزیں ہیں۔۔
یہ افغان مہاجر بچے بدقسمتی سے، پیدائش کے بعد پرورش سے محروم ہیں۔ یہ روزی روٹی کمانے کے لیے کچرے سے دوبارہ قابل استعمال اشیاء چنتے ہیں، جن میں کاغذ، گتہ، پلاسٹک، شیشہ شامل ہوتا ہے۔ یہ نوعمر لڑکے، جنگ سے تباہ حال، افغانستان میں اپنے گھر، والدین کو اپنی معمولی آمدنی کا ایک بڑا حصہ بھیجتے ہیں۔
پھلوں اور خشک میوں سے مالاما ل افغانستان کے یہ بچے، غریب الوطنی میں معمولی پھل خرید نےکی استطاعت نہیں رکھتے۔ ڈھائی سے تین سو یومیہ کمانے وا لے ان بچوں کے مطابق، مفت کھانے کے بجائے وہ خرید کر کھانا کھانے پرترجیح دیتے ہیں، کیونکہ ان کے بقول، لنگر کے کھا نے میں ملاو ٹ ہوتی ہے، جس کے باعث وہ بیما ر ہو جانے ہیں اور اسطرح انکے کام کا بلاوجہ حرج ہوتا ہے۔ پھر دوائی بھی خود ہی خرید نی پڑ تی ہے۔ کیونکہ سرکاری ہسپتال کی دوا اثر نہیں کرتی ہے۔
یہ بچےافغانستان میں اپنے والدین کو اپنے کام کی نوعیت نہیں بتاتے، باران نامی ایک افغان پناہ گزین لڑکے نے بتایا کہ اسکی ماں نے جب پوچھا کہ وہ کیا کام کرتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ وه بیره گیری کرتا ہے”اگر میری ماں کو سچ پتہ چل گیا تو غم سے اسکا دل پھٹ جائےگا”۔ زما ن کا کہنا ہے “پاکستان میں اسے کوئی تنگ نہیں کر تا مگر آجکل مہنگائی ہوگئی ہے جس کے باعث گزارا مشکل ہو گیا ہے”۔
کابل سے ہجرت کرنے والے،درویزه کے مطابق، کراچی میں اُسے کوئی چائے کے ہوٹل میں باہر والے کا کام بھی نہیں دیتا، کیونکہ اس کے پاس مقامی شناخت نہیں، لہذا وہ اوراسکا اٹھ سالہ بھائی باری، کراچی کی سڑکوں سے کچرے میں سے ردی چن کر گزارا کرنے ہیں۔ درویزه نے کہا کہ “اسکے ماں باپ کی ذمہ داری بھی اسکے کندھو ں پر ہے”۔ قندہارکے پناہ گزین، سولہ سالہ زمان نے بتایا کہ یہ پاکستان کی مہربانی ہے کہ اسے اور اسکےخاندان کے گیاره افراد کو یہاں رہنے اور کام کرنے کی اجازت ہے، ورنہ کوئی دوسرا ملک انہیں خوش آمدید نہیں کہتا ہے۔ “اگر پاکستان نہیں ہوتا تو ہم بھوک سے مرتا”۔
خالد حسن خان کا کہنا تھا دستاویزی فلم کا نام Twinkling without Shining اس بدولت ہے کیونکہ” یہ بچے ایسے جگمگ ستارے ہیں، جو بچپن کی چمک کے بغیر جھلما نے کے بجائے ٹمٹمارہے ہیں ۔ تعلیم، خوراک یا طبی ضروریات کی عدم موجودگی کی بدولت، ان نوعمروں نے اپنی معصومیت کے دن کھو دیئے ہیں۔ جنگ کی ہولناکیوں میں بچوں کا بچپن کھو جانا ایک انتہائی افسوس ناک پہلو ہے،جسے نام نہاد مہندب دنیا نے سراسر نظر انداز کر دیا ہے۔ اس دستاویزی فلم میں اسی دردناک پہلو کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کھیل کھلونوں اور کھکندڑپن سےمحروم یہ بچےاپنی سرپرستی خود کرنے پہ مجبور ہیں۔ افغانستان میں پائیدارامن ایک پراسرار خواب بن چکا ہے، جو ان معصوم جانوں کو سوتے جاگتے ستاتا ہے، اسی وجہ سے یہ افغان بچے اپنے وطن واپس جانے سے تاحال گریزاں ہیں”۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں