نورمقدم کیس کا بڑا فیصلہ ، ظاہر جعفر کو سزائے موت کے علاوہ کتنا جرمانہ کیا گیا اور رقم کس کو دی جائیگی؟ تفصیلی رپورٹ آگئی

اسلام آباد (پی این آئی) اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنا دی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج عطا ربانی نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی۔ سیشن کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ مجرم ظاہر جعفر کو قتل کے جُرم میں سزائے موت اور پانچ لاکھ روپے جُرمانہ کا حکم دیا گیا۔ تحریری فیصلے کے مطابق جبری زیادتی کے جُرم پر 25 سال قید اور دو لاکھ روپے جُرمانہ عائد کیا گیا۔ ظاہر جعفر کو قتل،اٖغوا ،جرم چھپانے ،حبس بے ویگر دفعات سمیت دفعہ 201، 364 ،342,176 ،109 ،302 کے تحت سزا سنائی گئی۔تحریری فیصلے کے مطابق اغوا کے جُرم پر ظاہر جعفر کو 10 سال قید اور ایک لاکھ روپے جُرمانے کا حکم دیا گیا۔دفعہ 342 کے تحت ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔ تحریری فیصلہ میں کہا گیا کہ ظاہر جعفر جُرمانہ مقتولہ کے ورثا کو ادا کرے۔

عدالت نے حکم دیا کہ اگر ظاہر جعفر نے لواحقین کو رقم نہیں دی تو اس کی زمین یا کوئی پراپرٹی بقایا جات میں شامل کی جائے گی۔ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم کیس کا چار صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے شریک مجرم چوکیدار افتخار اور مالی جان محمد کو 10،10 سال قید کی سزا سنا دی اور تھراپی ورکس کے تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ملزم جان محمد کو دفعہ 109 اور 364 کے تحت 10 سال قید اور ایک لاکھ روپے جُرمانے کی سزا سنائی گئی۔ملزم کو دفعہ 368 کے تحت دس سال قید اور ایک لاکھ روپے جُرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ ملزم کو دفعہ 176 کے تحت ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جُرمانے کا حکم دیا گیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم افتخار کو دفعہ 109 کے تحت دس سال قید اور ایک لاکھ روپے جُرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ملزم کو دفعہ 368 کے تحت دس سال قید اور ایک لاکھ روپے جُرمانہ کا حکم دیا گیا، عدالت کا سزائے موت کا حکم نامہ بھی مجرم ظاہر جعفر کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اس موقع پر سماعت کے سلسلے میں وکلا، تھراپی ورکس کے ملازمین، مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم کے علاوہ مدعی شوکت مقدم اپنے وکلا کے ہمراہ پیش ہوئے۔ اس کے علاوہ مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر سمیت چار گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے وکلا سمیت تمام افراد کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا تھا۔جج نے پولیس کو حکم دیا کہ مجھے بات کرنی ہے سب باہر چلیں جائیں، جس پر مرکزی ملزم سمیت چاروں گرفتار افراد کو واپس بھیج دیا گیا۔ یاد رہے کہ 27 سالہ نور کو 20 جولائی 2021ء کو دارالحکومت کے پوش علاقے سیکٹر ایف- 7/4 میں ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا، اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جائے وقوع سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔واقعے کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل) کے تحت درج کیا گیا تھا۔

عدالت نے 14 اکتوبر کو ظاہر جعفر سمیت مقدمے میں نامزد دیگر 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی۔ ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین افتخار (چوکیدار)، جان محمد (باغبان) اور جمیل (خانسامہ)، تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل ہیں۔ملزم ظاہر جعفر اس کے والدین اور دیگر ملزمان اڈیالہ جیل میں ہیں۔ظاہر جعفر کے والدین پر نور مقدم قتل کیس میں اعانت جرم کا الزام ہے۔ قتل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت 20 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ 4 ہفتے میں کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کیاتھا۔نور مقدم قتل کا مقدمہ 4 ماہ 8 دن چلا، عدالت نے 22 فروری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے دوران سماعت عدالت میں پیشی کے دوران مختلف بہانے بھی بنائے اور خود کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ظاہر جعفر کا میڈیکل کروانے کی بھی درخواست دی گئی تھی جس کو عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں