وزیراعظم نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر کب مشاورت کریں گے؟ صدر عارف علوی نے اہم ترین سوال کا جواب دیدیا

اسلام آباد(آئی این پی)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی تاہم وقت آنے پر وزیراعظم مشاورت کریں گے، تحریک عدم اعتماد ایسا معاملہ نہیں جس پر بات کی جائے اور اس طرح کی باتیں 2018 سے سن رہا ہوں، یہ وقت ضیاع ہے، جو مثبت اور سود مند مذاکرات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ حکومت موجود رہے گی اور کہیں نہیں جارہی،خانیوال واقعے کی شدید مذمت کرتا ہوں،اس طرح کے واقعات نہیں ہونے چاہئیں، حکومت کو ہر چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا اور عوام کو خود بھی اس طرح کے واقعات روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک نجی ٹی وی کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔واضح رہے کہ انہوں نے یہ بیان چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے صدر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ غیرمعمولی طور پر ایک ہی دن میں ہونے والی ملاقات کے ایک روز بعد دیا ہے۔اس دوران جب سوال کیا گیا کہ کیا وزیراعظم عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے معاملات پر مشاورت شروع کی ہے جس پرصدر مملکت نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں، وزیراعظم نے مشاورت نہیں کی لیکن میرا خیال ہے کہ وقت آنے پر وہ بالکل کریں گے۔ جب صدر مملکت سے سوال کے دوران ااخبار میں شائع ایک کالم کی جانب اشارہ کیاگیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم کو پارلیمنٹ اور ایک اہم شخصیت کے حوالے سے صدر مملکت کی دستخط شدہ دو سمریز مل چکی ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ ان احکامات میں کیا ہے تو اس پر صدر مملکت نے کہا کہ وہ اس طرح کی کسی پیش رفت سے آگاہ نہیں ہیں اور وزیراعظم کو میری طرف سے دستخط شدہ دستاویزات نہیں ملے اور چھپا کر نہیں رکھ سکتے کیونکہ میں دستخط کرتا ہوں تو بات پبلک ہوجاتی ہے۔

واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے کی مدت نومبر2022 میں ختم ہوگی، وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ انہوں نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے نہیں سوچا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی نے انٹرویو کے دوران مزید کہا کہ انہیں بلوچستان میں پیش آنے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر تشویش ہے۔انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گزشتہ روز کی ملاقات کے بارے میں بات کی جس میں دونوں نے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔صدرمملکت نے کہا کہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے اس حوالے سے مختلف وجوہات بیان کی اور کس طرح امریکی فورسز کا افغانستان سے انخلا ہوا اور اس کی وجہ سے بننے والی صورت حال جہاں وژن گوگلز اور بندوقوں سمیت دیگر ہتھیار کس طرح دہشت گردوں تک پہنچ گئے۔

انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔صدر مملکت نے کہا کہ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جس پر بات کی جائے اور اس طرح کی باتیں 2018 سے سن رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ضیاع ہے، جو مثبت اور سود مند مذاکرات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ حکومت موجود رہے گی اور کہیں نہیں جارہی ہے۔صدر مملکت نے پنجاب کے ضلع خانیوال میں ہجوم کی جانب سے شہری کے قتل کے واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اس طرح کے واقعات نہیں ہونے چاہئیں۔حکومت کی ذمہ داری کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہر چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا اور عوام کو خود بھی اس طرح کے واقعات روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں