اسلام آباد (پی این آئی) سینئر صحافی ہارون رشید کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی سرپرائز نہیں دے سکتی، انہیں خطرہ ہے کہ سندھ میں ان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔نجی ٹی وی چینل کے پروگرام مقابل میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ سندھ میں آئندہ پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں بن سکتی۔پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں ڈلیور بالکل نہیں کیا۔کراچی کے ساتھ ان کا مخاصمت کا رویہ ہے۔
سندھ میں لسانیت کو تو پیپلزپارٹی فروغ دے رہی ہے۔مراد علی شاہ جو اور سوچنے کی بات کر رہے ہیں وہ تو علیحدگی کی دھمکی دے رہے ہیں۔یہ مضحکہ خیز اور احمقانہ بات ہے۔ہارون رشید نے مزید کہا کہ یہ بات اصل میں انہوں نے نہیں بلکہ آصف زرداری نے کہیں۔یہ ڈر رہے ہیں کہ دو سال بعد ان کا بہت برا وقت شروع ہونے والا ہے۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ آج جو کچھ ہوا سب نے دیکھا۔مراد علی شاہ نے ثابت کیا کہ وہ سردارانہ نظام سے چلانا چاہتے ہیں۔انہوں نے مینارٹی کا کہا ۔انہوں نے تعصب پھیلایا اور نفرت پھیلائی۔نثار کھوڑو نے اندر آگ لگائی تھی۔وزیر اعلی نے کہا اٹھا کر انہیں باہر پھینک دیں ۔فہمیدہ سیال کا قاتل بھی یہاں موجود تھا۔ سندھ کے عوام آپ کو اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔تمہارے باپ کی بادشاہی ہے کہ اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ ناصر حسین شاہ پر افسوس ہے ۔ہم کس پر اعتبار کریں ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس بلدیاتی قانون کو مسترد کرتے ہیں ۔
اس کے خلاف ہر فورم پر احتجاج کریں گے۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر بلال غفار نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں ایک اور سیاہ دن اور سویلین ڈکٹیٹر شپ ہے۔حکومت نے سندھ پر قبضے کا قانون منظور کیا اور ہمیں بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ایم کیو ایم پاکستان کے رکن کنور نوید جمیل نے کہا کہ سندھ حکومت نے آمدنی والے ادارے اپنے پاس رکھ لیے۔ بلدیاتی اداروں کے اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی قومیا لیا ہے۔ یہ کرپشن کا قانون لائے ہیں جس پر اپوزیشن کو بات تک نہیں کرنے دی گئی۔گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی ای) کے رکن عارف مصطفی جتوئی نے کہا کہ پیپلز پارٹی مشرف کے نظام کو ظلم کا نظام قرار دیتی تھی اور خود بھی وہی نظام لانے کا دعوی کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رکن محمد حسین نے کہا کہ اپوزیشن کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں ان کی ڈکٹیٹر شپ اور بلدیاتی اداروں کے وسائل پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں