اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا تیسرا اجلاس جو گزشتہ روز قومی اسمبلی کے ایوان میں 5گھنٹے سے زیادہ دورانیہ پر محیط تھا اس ’’ان کیمرہ‘‘اجلاس کے اختتام پر پارلیمنٹ ہائوس کی غلام گردشوں ،وزرا کے چیمبرز اور کیفے ٹیریا میں میڈیا کے ارکان اوراجلاس کے شرکا کے درمیان اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے ’’سرگوشیوں اور تبادلہ خیال‘‘کا سلسلہ شروع ہو گیا متعدد ارکان جن میں بعض وزرا بھی شامل تھے۔انہوں نے’’ان کیمرہ‘‘ کی اصطلاح کے
ضابطے پر عمل کرنےکو ضروری نہیں سمجھا اور اس طرح رات تک کارروائی کا بیشتر حصہ میڈیا کے نمائندوں کے پاسپہنچ کر ٹی وی ٹاک شوز اور اخبار کی خبروں کی زینت بن چکا تھا ،روزنامہ جنگ میں فاروق اقدس کی شائع خبر کے مطابق اجلاس کی تفصیلات پر گفتگو کرنے والے ارکان جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سوالوں کا جواب دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے ایک وفاقی وزیر نے سوال کے جواب میں بتایا کہ اجلاس میں
تحریک لبیک پاکستان کا موضوع تادیر زیر بحث رہااور اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف اور تقریباً تمام پارلیمانی رہنمائوں نے اس معاہدے پر تشویش کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ اس معاہدے کی تفصیلات کے حوالے سے ارکان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر اس پر بحث کرانے کا بھی مطالبہ کیا جبکہ ملک کی معاشی صورتحال کی ابتری پر عسکری قیادت نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا۔اجلاس میں پارلیمانی ایوانوں میں نمائندگی رکھنے والی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کے قائدین اور
پارلیمانی لیڈرز کے علاوہ اعلیٰ سطح حکومتی شخصیات موجود تھی تاہم قومی اسمبلی میں قائد ایوان وزیراعظم عمران خان کی کرسی خالی تھی جو موضوع بحث بھی بنی ۔ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی سے بعض شرکا نے اجلاس کے دوران ہی سوال کیا کہ وزیراعظم اتنے اہم اجلاس میں شریک کیوں نہیں تو انہوں نے بے نیازی سے کہا کہ اس کا جواب تو وزیراعظم ہی دے سکتے ہیں دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں
وزیراعظم کی غیرموجودگی پر سوال اٹھا دیا۔لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نےاپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ طویل اجلاس میں قائد حزب اختلاف، وزراء، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی نے شرکت کی، لیکن وزیراعظم غائب تھےآخر قومی سلامتی سے اہم موضوع کونسا ہے چیف ایگزیکٹو کن کاموں میں مصروف ہیں۔ایک رکن کے مطابق عسکری قیادت کی جانب سے کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کی بریفنگ کے بعد شہباز شریف نے 40 منٹ تک گفتگو کی جبکہ سوال و جواب کے سیشن میں
آرمی چیف نے بیشتر سوالوں کے جواب خود دیئے۔اجلاس کے دوران اہم قومی اور سلامتی کے امور پر حساس نوعیت کے سوالات سے لے کر سیاسی معاملات پر بھی گفتگو ہوئی گو کہ اجلاس میں سیاسی و پارلیمانی قیادت کے علاوہ بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی سینیٹرز وفاق اور صوبوں کی اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔جن کی تعداد لگ بھگ 70 تھی لیکن اس طویل دورانیے کے اجلاس میں تمام وقت ہونے والی گفتگو جن میں بعض چبھتے ہوئے سوالات اور شکوے شکایتوں کے لہجوں میں
یاددہانیاں اور استفسار بھی کئے گئے تھے لیکن کیا مجال کہ کوئی بدنظمی بلند آواز میں سوال یا استفسار حتیٰ کہ اجلاس سے لاتعلقی یا باہم گپ شپ کا وہ ماحول دیکھنے میں آیا ہو جو اسی ایوان میں ارکان قومی اسمبلی کے اجلاس میں دیکھنے میں آتا ہے۔ایوان میں موجود ایک رکن قومی اسمبلی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا چونکہ ایوان کی کارروائی ’’ان کیمرہ‘‘تھی اس لئے کارروائی کے بارے میں سوالات کے جواب دینے سے معذرت تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایوان کا
خوشگوار ماحول بامقصد کارروائی اور ارکان کو اہم امور پر اعتماد میں لینے کا یہ انداز کاش قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی ہو جس میں نکتہ اعتراض پر بے مقصد تقریریں ایک دوسرے پر سنگین الزامات واک آئوٹ اور بائیکاٹ ذاتی ریمارکس سے پارلیمان کے تقدس کو مجروح اور کارروائی کو بے مقصد بنا دیا جاتا ہے۔جب مذکورہ رکن سے استفسار کیا گیا کہ کیا اتنا اچھا ماحول اس وجہ سے تھا کہ اجلاس عسکری قیادت کی موجودگی میں ہو رہاتھا جس پر مذکورہ رکن کا کہنا تھا کہ
بادی النظر میں تو یہی کہا جا سکتا ہے واضح رہے کہ پی سی این ایس کا یہ تیسرا اجلاس ہے۔اس سے قبل ستمبر میں آخری اجلاس میں افغانستان میں رونما ہونے والی سیاسی پیش رفت کے تناظر میں علاقائی سلامتی کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیلئے ہوا تھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں