لاہور میں ماں نے خود ہی اپنی نومولود بچی کو اغوا کر وا دیا، وجہ بھی سامنے آگئی

اسلام آباد(پی این آئی)پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پولیس نے ایک ماہ کی بچی کے اغوا کے ایک مقدمے میں اس کی ماں کو حراست میں لے لیا ہے۔پولیس نے تھانہ ملت پارک میں خالد نامی شہری کی درخواست پر مقدمہ درج کیا جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ان کی ایک ماہ کی بیٹی کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔

ایس پی اقبال ٹاؤن رضا تنویر نے بتایا کہ ’پولیس نے فوری طور پر مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کردی۔‘ان کے مطابق ’بچی کی ماں کے بیانات میں تضادات سامنے آنے کے بعد تفتیشی افسران کو ان پر شک پڑا تو انہیں بھی شامل تفتیش کر لیا گیا۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’چند ہی گھنٹے بعد بچی کی ماں نے پولیس کے سامنے انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنی بچی کو خود اغوا کروایا تھا۔‘انہوں نے پولیس کو بتایا کہ ’تیسری بیٹی کی پیدائش پر میں رنجیدہ تھی اور ڈر تھا کہ شوہر اور سسرال والے تیسری بچی کی پیدائش کے بعد برا سلوک کریں گے۔ اس لیے کلثوم نامی دوست کے ہاتھوں اپنی بیٹی اغوا کروائی۔‘پولیس کے مطابق ’آمنہ نامی اس خاتون کے بیان کے بعد کلثوم کو بھی حراست میں لے لیا گیا اور بچی بازیاب کروا لی گئی۔

‘ایس پی اقبال ٹاؤن کا کہنا تھا کہ ’اس وقت دونوں ملزم خواتین پولیس کی حراست میں ہیں اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد ان کو عدالت نے جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔‘تھانہ ملت پارک میں تفتیشی ٹیم کو دیے گئے اپنے بیان میں آمنہ نے بتایا کہ ’میری شدید خواہش تھی کہ ہمارے ہاں بیٹا پیدا ہو، پہلے ہی میری دو بیٹیاں ہیں جس کی وجہ سے میرے ساتھ سسرالیوں کا رویہ ٹھیک نہیں تھا۔‘’میرے اپنے گھر والوں نے بھی یہی کہا تھا کہ بیٹا نہ ہوا تو تمھارا گھر بسنا مشکل ہے، تاہم جب بیٹی پیدا ہوئی تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔

اس کے بعد میں نے اپنی ایک دوست سے مشورہ کیا کہ اپنی بیٹی کو کسی بے اولاد جوڑے کو دے دوں اور اسی وجہ سے میں نے ایک منصوبے کے تحت شوہر کو بتایا کہ میں واش روم میں کپڑے دھو رہی تھی، 15 منٹ بعد واپس کمرے میں آئی تو بچی غائب تھی۔‘ پولیس کا کہنا ہے کہ ’ایف آئی آر میں اغوا کی دفعات شامل ہیں اس لیے تمام قانون کے تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں۔ مقدمے کے مدعی اور بچی کے باپ خالد نے اس صورت حال پر رائے دینے سے انکار کیا۔‘فوجداری مقدمات کے ماہر اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری محمد شمیم سمجھتے ہیں کہ ’یہ کیس سے زیادہ المیہ ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’ایک ماہ کی بچی جس کو ماں کی شدید ضرورت ہے، وہ ماں سے دور ہے کیونکہ وہ جیل میں ہے۔ ماں نے بظاہر بچی کو خود سے معاشرتی دباؤ کے نتیجے میں دور کیا یہ مقدمہ عدالت کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا۔‘

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں