ایٹم بن جانے کے بعد اب بھارت کبھی پاکستان کو بلیک میل نہیں کرسکے گا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انتقال سے کچھ عرصہ قبل سینئرصحافی کوانٹرویو

اسلام آباد (آئی این پی ) نامور ایٹمی سائنسدان محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل ملک کے نامور سینئر صحافی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوت ہیں ،دونوں کو بخوبی علم ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو دونوں ممالک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے لٰہذا کوئی ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کرے گا ،

پاکستان کے ایٹمی قوت بننے سے خطے میں طاقت کا توازن پیدا ہو گیا ،اب بھارت کبھی پاکستان کو بلیک میل نہیں کرسکے گا، جس طرح دو سپرپاورزا مریکہ اور روس کے درمیان نونک جھونک ہوتی رہتی ہے لیکن دونوں کو ایک دوسرے کی طاقت کا علم ہے اس لئے جنگ نہیں ہوتی ،روس افغانستان میں ایٹم بم استعمال کرنے سے باز رہا ہے ،یہی صورتحال امریکہ کی بھی ہے ، اس نے بھی ایٹم بم کا سہارا لینے سے گریز کیا لہٰذا اب کوئی ایٹم بم استعمال نہیں کرے گا ،ایٹم بم نے تو امن کو یقینی بنایا ہے ،بھارت کے پاس پاکستان کے مقابلے میں دس گنا زیادہ وسائل ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے عوام بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل سینئر صحافی نواز رضا کو دئیے گئے آخری انٹرویو کے دوران محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہا تھا کہ پچھلے 18سال سے 207ہل روڈ میں سیکیورٹی کے نام پر ’’مقید ‘‘ تھے ان کی رہائش گاہ عملی طور پر ’’قید خانہ‘‘ میں تبدیل ہو چکی ہے ان تک رسائی ممکن نہیں تھی تاہم ان سے وڈیو لنک کے ذریعے پر انٹرویو لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قید میں بڑی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے قید قید ہی ہوتی ہے خواہ جیل میں ہو یا گھر پر قید کر دیا جائے قید گزارنے کا عادی ہو گیا ہے ۔ہر روزبندر ، چیلیں اور فاختائیں میری رہائش گاہ پر آتی ہیں ۔

ان کی خاطر مدارا ت کا انتظام کرتا ہوں ہے ۔امام ابو حنیفہؒ،سمیت بڑے بڑے علما کرام اور شخصیات نے قید کی کی تکالیف اٹھائی ہیں ہم تو ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیںان کا کردار دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے صبر اور ہمت دی ہے قید برداشت کر رہا ہوں ۔ شکایت کریں تو کس سے کریں ،پوری اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھیں حکمران اپنی رعایا کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے آئے ہیں ۔ایچ ای ڈی یونیورسٹی اعزازی ڈگری دینا چاہتی تھی مجھے تو وہاں بھی نہیں جانے دیا گیا ۔چائے کا ایک کپ بھی آزادی سے کہیں بیٹھ کر نہیں پی سکتا۔ مجھے ڈرایا جاتا ہے کہ کوئی آپ کو گولی مار دے گا۔ مجھ میں خوف نام کی کوئی چیز نہیںاپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں بارے اللہ تعالی ٰ کی عدالت میں اپنا مقدمہ درج کروائوں گا۔

انہوں نے کہا کہ خطرہ اس وقت تھا جب میں ایٹم بم بنا رہا تھا پوری دنیا میں گھومتا پھرتا تھا مجھے گھومنے پھرنے کی مکمل آزادی تھی۔میں ہر ماہ یورپ جایا کرتا تھا جہاں مجھ کوخطرہ لاحق ہو سکتا تھا لوگوں کو معلوم تھا لیکن انہوں نے مجھے کبھی نقصان نہیں پہنچایا ۔اب میں 85برس کا ہو گیا ہوں اب مجھے کیا خطرہ ہو سکتا ہے ۔میں ، چین ،جاپان ،شام سمیت کہاں کہاں نہ گیا ،کیا اس وقت مجھے سیکورٹی کی ضرورت نہیں تھی؟

توکیا اب سیکیورٹی کی ضرورت ہے جب کہ میں اپنے ملک میں رہ رہا ہوں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دنیا میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں شکوک شہبات کا اظہار کیا جارہا تھا بعض ملک جن میں بھارت پیش پیش تھا اسے مذاق سمجھ رہا تھا لہذا بھارت سمیت پوری دنیا کو یہ باور کرانا ضروری تھا کہ پاکستان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے اور اس کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ کرے ۔

خدا کے فضل و کرم سے اب پاکستان ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے ۔جنرل ضیا الحق نے بھی ’’India Today‘‘کو بھی یہ کہا تھا کہ ہم جب چاہیں ایٹم بم بنا سکتے ہیں ۔میں نے 1984میں جنرل ضیا الحق کو لکھ کر بھیج دیا تھا کہ آپ جب چاہیں مختصر نوٹس پر ایٹمی دھماکہ کیا جا سکتا ہے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہااگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی بم بنانے کیلئے گھاس تک کھانے کا اعلان کیا تھا لیکن گھاس کھانے سے ایٹم بم تو نہیں بنا کرتے ۔میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے پوری ٹیکنالوجی لے کر آیا ۔

بہرحال ایٹم بم بنانے میں میرا تجربہ کام آیا ۔ذوالفقار علی بھٹوکی زندگی نے وفا نہ کی۔ ضیا الحق کے دور میں پاکستان ایٹمی قوت بن گیا لیکن نواز شریف کی حکومت میں ایٹمی دھماکے کرنے کا موقع ملا ۔سبھی نے اپنے اپنے وقت میں اپنا کرادار ادا کیا ہے ۔ ذوالقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جب ضیا الحق کو معلوم ہوا کہ ایٹمی پروگرام کی جان مجھ میں ہے تو پھر انہوں نے پروگرام کی مکمل حفاظت کی اور اس پروگرام کی پوری سپورٹ کی ۔ اس پروگرام کے مالی معاملات کے انچارج غلام اسحاق خان تھے اور انہوں نے دل کھول کر فنڈز فراہم کئے ۔اگر کوئی اور ہوتا تو ممکن ہے کہ یہ پروگرام اتنی جلدی پورا نہ ہوتا بلکہ شاید ختم ہو چکا ہوتا۔ غلام اسحاق ایٹمی پروگرام کی وجہ سے مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے ۔انہیں یقین تھا کہ میں پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچائوں گا ۔

ایک بات کہوں کہ غلام اسحاق خان پٹھان تھے اور میں بھی۔اس لئے انہیں یقین تھا کہ پٹھان جو بات کرتا ہے اس پر قائم رہتا ہے اور پورا کر کے دکھاتاہے ۔انہوں نے بتایا کہ میں نے کلدیپ نیئر سے یہ کہا تھا کہ یہ 1971نہیں ہے جب بھارت نے پاکستان کو دولخت کر دیا تھا ۔ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے اب اگر بھارت نے بدمعاشی کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔میرے اس جواب پر پاکستان اور بھارت میں بڑا شور شرابا ہوا۔ جنرل کے ایم عارف نے میری اس بات پر ناراضی کا اظہار کیابہرحال میرے اس پیغام نے بھارت کو اپنی اوقات پر رہنے پر مجبور کر دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے آخری انٹرویو میں بتایا کہ 1971ء کی جنگ میں بھارت نے پاکستان کو دولخت کر دیا اس کے بعد بھارت نے پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں میں نے ہالینڈ میں سوچا کہ جب تک پاکستان ایٹمی قوت نہیں بن پائے گا تب تک ہم بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکیں گے ۔میں یہ مشن لے کر 1976میں پاکستان آگیا اس وقت مجھے 3ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جانے لگی۔

پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے سائنس دان کی تنخواہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب میں ریٹائرڈ ہواتو میری پنشن 4ہزار روپے400روپے سے کچھ زائد تھی،ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا کہ میں پیسے کمانے تو پاکستان نہیں آیا تھا میں بھاری تنخواہ چھوڑ کر دراصل اپنے وطن عزیز کو ایک ایٹمی قوت بنانے کا جذبہ لے کر پاکستان آیا تھا۔، انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ کہوٹہ میں ایٹمی پروگرام کیلئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو ایئر پورٹ کے بھی قریب تھی اورجی ایچ کیو کے لئے بھی جہاں بہتر طور پر ایٹمی پروگرام کی حفاظت بھی کی جا سکتی تھی ۔

علاوہ ازیں وہاں پر سائنس دانوں کے قیام کیلئے بھی جگہ موجود تھی ۔ہم نے تمام لوگوں کو معقول معاوضہ دے کر ایٹمی پلانٹ کے لئے زمینیں حاصل کیں، ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے بتایا کہ فرانس کے سفیر اور بی بی سی کے دو نمائندوں نے کہوٹہ تک پہنچنے کی بڑی کوشش کی بھیس بدل کر کہوٹہ آنے پر ہمارے سیکیورٹی کے اداروں کے اہلکاروں نے اُن کی خوب خاطر مدارات کی ۔تین چار روز بعد فرانسیسی سفیر نے جنرل ضیا الحق سے اپنی’’ خاطر مدارات‘‘ کئے جانے پرشکایت کی۔

جنرل ضیا الحق نے کہا کہ’’ جناب سفیر آپ نے بڑی غلطی کی کہ ایک حساس علاقے میںپرائیویٹ گاڑی میں چلے گئے۔ آپ ہمیں بتاتے تو ہم آپ کو سرکاری گاڑی میں لے جاتے ۔میرے خیال میںکاش ان کی جگہ امریکن ہوتے توزیادہ مدار ت کی جاتی، انہوں نے کہا کہ دنیا میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں شکوک شہبات کا اظہار کیا جارہا تھا بعض ملک جن میں بھارت پیش پیش تھا اسے مذاق سمجھ رہا تھا لہذا بھارت سمیت پوری دنیا کو یہ باور کرانا ضروری تھا کہ پاکستان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے اور اس کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ کرے ۔

خدا کے فضل و کرم سے اب پاکستان ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے ۔جنرل ضیا الحق نے بھی ’’India Today‘‘کو بھی یہ کہا تھا کہ ہم جب چاہیں ایٹم بم بنا سکتے ہیں ۔میں نے 1984میں جنرل ضیا الحق کو لکھ کر بھیج دیا تھا کہ آپ جب چاہیں مختصر نوٹس پر ایٹمی دھماکہ کیا جا سکتا ہے ،میں نے کلدیپ نیئر سے یہ کہا تھا کہ یہ 1971نہیں ہے جب بھارت نے پاکستان کو دولخت کر دیا تھا ۔ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے اب اگر بھارت نے بدمعاشی کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔

میرے اس جواب پر پاکستان اور بھارت میں بڑا شور شرابا ہوا۔ جنرل کے ایم عارف نے میری اس بات پر ناراضی کا اظہار کیابہرحال میرے اس پیغام نے بھارت کو اپنی اوقات پر رہنے پر مجبور کر دیا، انہوں نے کہا کہ جب ایٹمی دھماکے کرنے تھے تو مجھے چاغی کے پہاڑ سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی تھی ،لیکن جب جنرل جہانگیر کرامت کو اس صورتحال کا علم ہوا تو نہوں نے مجھے فوری طور پر چاغی پہنچانے کیلئے جہاز فراہم کیا ۔ڈاکٹر اشفاق اور میں نے اکٹھے چاغی کیلئے سفر کیا، پاکستان کے عوام بہتر طور پر جانتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے ، محسن پاکستان نے اپنے آخری انٹرویو میں کہا تھا کہ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی بم بنانے کیلئے گھاس تک کھانے کا اعلان کیا تھا لیکن گھاس کھانے سے ایٹم بم تو نہیں بنا کرتے ،میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے پوری ٹیکنالوجی لے کر آیا ۔بہرحال ایٹم بم بنانے میں میرا تجربہ کام آیا ۔ذوالفقار علی بھٹوکی زندگی نے وفا نہ کی۔

ضیا الحق کے دور میں پاکستان ایٹمی قوت بن گیا لیکن نواز شریف کی حکومت میں ایٹمی دھماکے کرنے کا موقع ملا ۔سبھی نے اپنے اپنے وقت میں اپنا کرادار ادا کیا ہے ۔ ذوالقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جب ضیا الحق کو معلوم ہوا کہ ایٹمی پروگرام کی جان مجھ میں ہے تو پھر انہوں نے پروگرام کی مکمل حفاظت کی اور اس پروگرام کی پوری سپورٹ کی ۔

اس پروگرام کے مالی معاملات کے انچارج غلام اسحاق خان تھے اور انہوں نے دل کھول کر فنڈز فراہم کئے ۔اگر کوئی اور ہوتا تو ممکن ہے کہ یہ پروگرام اتنی جلدی پورا نہ ہوتا بلکہ شاید ختم ہو چکا ہوتا۔ غلام اسحاق ایٹمی پروگرام کی وجہ سے مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے ۔انہیں یقین تھا کہ میں پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچائوں گا ۔

ایک بات کہوں کہ غلام اسحاق خان پٹھان تھے اور میں بھی۔اس لئے انہیں یقین تھا کہ پٹھان جو بات کرتا ہے اس پر قائم رہتا ہے اور پورا کر کے دکھاتاہے ، انہوں نے کہا تھا کہ گوہر ایوب ، شمشاد احمد اور میری وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی تو اس وقت وہ مختلف لوگوں کے مشوروں سے تذبذب کا شکار تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ جناب وزیر اعظم اگر ہم نے اب ایٹمی دھماکے نہ کئے تو پاکستان پھر کبھی دھماکے نہیں کر پائے گا ، نواز شریف سے اختلافات کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر (مرحوم) نے کہا تھا کہ میرا نواز شریف سے کوئی اختلاف نہیں تھا ، ان کے اردگرد لوگ غلط مشورے دیتے تھے میں نے انہیں ہمیشہ صحیح مشورہ دیا ، پرویز مشرف دور کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت نے اپنی کتاب میں حقائق بیان کر دئیے ہیں ۔میں نے ملک کو بچانے کیلئے سب کچھ اپنے ذمہ لے لیا ۔

جس طرح پاکستان کی مسلح افواج کے افسر اور جوان ملک کی سرحدوں کے دفاع میں اپنی جانوں کے نذانے دیتے ہیں میں نے بھی اپنے ملک کیلئے وہ سب کچھ اپنے ذمہ لے لیا جو میں نے نہیں کیا ،میں نے عدالتوں کے دروازئے کھٹکائے ہیں اور انصاف کے حصول کیلئے کوشاں ہوں لیکن تاحال میری کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔پاکستان کے عدالتی نظام کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے کہ یہاں انصاف کا حصول کتنا مشکل ہے پوری دنیا میں ہمارے عدالتی نظام کا گراف بہت نیچے ہے ، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ مکافات عمل ہے پرویز مشرف کو پاکستان کی سرزمین میں دفن میں ہونا نصیب نہیں ہو گا ۔میں پاکستان میں ہی ہوں اوراسی کی مٹی کا حصہ بن جائوں گا۔

پرویز مشرف ایک مجرم ہے اور اس کو سزائے موت ہوئی ہے ۔وہ پاکستان نہیںآسکتا۔مجھے 18سال قبل قید میں رکھنے کی جو پالیسی اختیار کی گئی عمران خان بھی اسی پر عمل کر رہے ہیں، ڈاکٹر قدیر نے کہا تھا کہ ہم نے ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے ایک پلان بنایا تھا لیکن اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں رہا ہے ملک لوٹنے کے لئے آئے ہیں ہمارے منصوبوں کی کون پرواکرتا ہے ۔ ملک میں نالائق لوگوں کی حکومت ہے سٹرک سے اٹھا کر لوگوں کو اقتدار میں بٹھا دیا گیا ہے ۔

اگر یہ لوگ ملک میں مزید دو سال برسر اقتدار رہے تو پاکستان کے عوام بھوکے مر جائیں گے ۔دعا کریں کہ حکومت میں اچھے لوگ آجائیں اور ملک کو ترقی کی طرف لے جائیں ۔ہم نے تو سیاسست میں حصہ لینے کا ناکام تجربہ کیا ہے ۔لوگوں کی خواہش تھی کہ حالات بہتر ہو جائیںلیکن ایسا نہ ہو سکا ۔اس وقت ناتجربہ کار لوگوں کی حکومت ہے خدا خیر کرے۔20،25 غیر منتخب معاونین بٹھا دئیے گئے ہیں جن کا کام صبح شام گالیا ں دینا ہے ۔

یہ ایک ناکام حکومت ہے اس سے زیادہ ناکام حکومت پاکستان میں شاید ہی کبھی آئی ہو ،3ہزار روپے کی نوکری پر پاکستان آنے والے پر دولت کمانے کا الزام لگانے والوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔اگر میں بیرون ملک ہوتا تو ملین ڈالرز کماتا ۔لیکن میں نے پاکستان کے لئے قربانی دی ۔افسوس ہے کہ مجھ پر اتنے گھنائونے الزام لگائے گے لیکن سب جھوٹے نکلے پھر اللہ تعالی نے مجھے سرخرو کیا ، میں فارغ وقت میں اسلامی تاریخ کی کتب پڑھتا ہوں،بھوپال میری جنم بھومی ہے وہ بہت یاد آتا ہے۔ انتہائی خوبصوت شہر ہے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ بھوپال نے کبھی کوئی غدار پیدا نہیں کیا ، اپنے آخری انٹرویو میں قوم کیلئے اپنے پیغام میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا تھا کہ قوم کو مشکل حالا ت میں زندہ رہنا سیکھنا چاہیے ۔ سچ بولنا چاہیے اور حکمرانوں کی منافقت کی پروا کئے بغیر آگے بڑھنے کا سوچنا چاہیے ۔

سچ بولنے اور ایمانداری کا مظاہرہ کرنے والی قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ۔مہنگائی کر کے عام آدمی کی زندگی اجیرن نہ بنائی جائے ملاوٹ کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں