امریکی صدر جوبائیڈن عمران خان سے کیوں ناخوش ہیں؟ امریکی ماہرین نے وجہ بتا دی

اسلام آباد(پی این آئی) امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ بائیڈن پاکستان سے خوش نہیں۔قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے درمیان فارن پالیسی کے ایشو پر واضح خلیج اور اختلافات پائے جاتے ہیں۔پاکستان، افغانستان ، چین ، روس اور ایران ایسے ممالک ہیں جن کی وجہ سے سویلین اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ بظاہر ایک پیج پر نظر نہیں آتی۔ پینٹاگون چین کو اپنی نیشنل سیکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔صدر جوبائیڈن چین کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بائیڈن کی ناکامیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے امریکی سرحدوں کو غیر قانونی مہاجرین کےلیے کھول دیا ہے،روس کی پائپ لائنوں پر سے پابندیاں ہٹانے کے بعد اس کی جیو پولیٹیکل طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔اسرائیل سمجھتا ہے کہ ایران سے پابندیاں ہٹانے سے اس کی سالمیت خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔اس لیے اسرائیلی حکومت اور اس کی لابی بائیڈن انتظامیہ سے خوش نہیں۔امریکی ماہرین کے مطابق پاکستان کے متعلق پینٹاگون نرم رویہ رکھنے کے خواہش مند ہے۔دوسری طرف صدر بائیڈن عمران خان کی لیڈر شپ سے خوش نہیں۔

بائیڈن چاہتے ہیں کہ عمران خان لچکدار رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی فارن پالیسوں کو غیر جانبدار نہ بنائیں۔ وہ افغانستان میں اپنی شکست کو پاکستان پر تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پینٹاگون قیادت بائیڈن انتظامیہ سے خوش نہیں۔ہو سکتا ہے ادھورے ایجبڈے کی تکمیل کے لیے 2024 کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی پھر لاٹری نکل آئے۔واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کو امریکی صدر کا فون نہ کرنا ابھی ایک موضوع ہے۔حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے ترک ٹی وی کو انٹرویو دیا۔ اینکر نے سوال کیا کہ آپ اس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تشریح کیسے کریں گے۔

جس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میرے خیال میں ہم امریکا سے بات چیت کر رہے ہیں۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ امریکی ہم منصبوں سے رابطے میں ہیں۔ہمارے وزیر خارجہ ان کے وزیر خارجہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔جس پر اینکر نے سوال کیا کہ لیکن امریکی صدر نے اب تک آپ کو کال نہیں کی۔انہوں نے نہیں کی، لیکن ایسا ہوتا بھی نہیں ہے،آپ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے۔صدر اور ریاست کے سربراہان کی بات چیت رسمی ہوتی ہے۔ کیونکہ اصل کام تو ان کے نیچے کام کرنے والے لوگ کرتے ہیں اس لیے ضروری نہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں