ٹی ٹی پی کیساتھ امن مذاکرات ٗ حکومت بہتر پوزیشن میں آگئی

اسلام آباد (پی این آئی) اگست کے وسط میں کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے چند روز بعد ہی، افغان طالبان نے پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پُر امن معاہدے کیلئے تحریک طالبان پاکستان والوں سے مذاکرات کرے۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی لکھتے ہیں کہ کسی اور نے نہیں بلکہ نئی حکومت کے ترجمان زبیح اللہ مجاد نے میڈیا کے ساتھ اگست میں بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ یہ افغانستان نہیں بلکہ پاکستان ہے جسے ٹی ٹی پی (کالعدم تنظیم) کے مسئلے سے نمٹنا ہے۔ دیگر طالبان رہنمائوں کی طرح مجاہد نے بھی اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ

طالبان اپنی سرزمین دوسرے کسی ملک کیخلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ زبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا تھا کہ ٹی ٹی پی والے افغان طالبان کو اپنا لیڈر مانتے تھے لہٰذا ٹی ٹی پی والوں کو بات پسند آتی ہے یا نہیں انہیں کابل کے نئے حکمرانوں کی بات سننا پڑے گی۔ پاکستان چاہتا تھا کہ افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کریں لیکن افغان طالبان اور ٹی ٹی پی والوں کے قابض افواج کیخلاف ماضی میں مشترکہ کارروائیوں کی وجہ سے افغان طالبان اُن سب سے خود کو لاتعلق رکھنا چاہتے تھے جو ٹی ٹی پی والے پاکستان میں کرتے رہے ہیں۔ تاہم، جیسے ہی طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا، اور دوحہ معاہدے (طالبان اور امریکا کے درمیان) اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی روشنی میں طالبان نے پوری دنیا کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ ماضی کے برعکس اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کیخلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ اس وعدے کے بعد ٹی ٹی پی، دیگر کالعدم تنظیموں بشمول افغانستان سے سرگرم بلوچ گروپس کو پاکستان کیخلاف کارروائیوں سے روک دیا گیا۔ حال ہی میں پاکستان میں ہونے والی چند دہشت گرد کارروائیوں کے بعد، اسلام آباد نے کابل میں طالبان سے رابطہ کیا تاکہ اس بات کی یقین دہانی کی جا سکے کہ افغانستان میں بیٹھے ٹی ٹی پی والے اور دیگر گروپس طالبان کے وعدے کی خلاف ورزی نہ کر سکیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ چند واقعات میں دہشت گردوں کے روابط افغانستان سے ملے ہیں۔ 2014ء میں اے پی ایس پر ہونے والے حملے کے بعد سے پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور دہشت گردوں کی پاکستان میں موجودگی کو بڑے پیمانے پر ختم کیا گیا ہے۔ اور اب کابل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے ملک کا مغربی سرحدی حصہ بہت حد تک محفوظ ہو چکا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں