شنگھائی کانفرنس کاپیغام، سنیئر تجزیہ کار ارشادمحمود کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

تاجکستان میں شنگھائی کانفرنس تنظیم کا سالانہ سربراہی اجلاس تمام ہوچکاہے۔ یہ اجلاس اس پس منظر میں بہت اہم تھا کہ افغانستان کے حالات مسلسل بے اطمینانی کا باعث ہیں ۔اگرچہ طالبان نے حکومت کے قیام کا اعلان کردیا ہے لیکن ایک ایسی حکومت کا قیام ہنوز دلی دور است ہے جسے دنیا تسلیم کرے اور وہ عالمی برادری کی شراکت دار ہو۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے تاجکستان میں ہر ممکن کوشش کی کہ دنیا پاکستانی موقف کا ادراک کرے اور افغانستان کے ساتھ قطع تعلق کے بجائے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لے۔

شنگھائی کانفرنس ایک علاقائی فورم ہے جس پر اگرچہ چھاپ چین اور روس کی گہری ہے لیکن پاکستان ،ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی موجود گی میں اس فورم میں توازن پیدا ہوجاتاہے ۔ یہ علاقائی ممالک اور مسائل کے بارے میں زیادہ حقیقت پسندانہ اور ہم درددانہ نقطہ نظر اختیار کرنے لگتاہے۔ چونکہ شنگھائی کانفرنس کے رکن ممالک پاکستان کے گردونواح میں واقع ہیں اس لیے شنگھائی کانفرنس کے انعقاد سے پاکستان اس ممالک کے ساتھ دوطرفہ تجارت بڑھانے اور تعلقات میں بہتری کی نئی رائیں تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔خاص طور پر علاقائی ممالک کی لیڈرشپ کا روس اورچین کی قیادت کے ساتھ سالانہ بنیادوں پر تبادلہ خیال اور رابطے کا یہ ایک بہترین فورم ہے،جو ان ممالک کو گزشتہ بیس سالوں میں غیر معمولی طور پر قریب لانے کا موجب بنا ہے۔
حالیہ سربراہ کانفرنس اس پس منظر میں برپا ہوئی کہ افغانستان سے نہ صرف امریکہ بہادر بلکہ مغربی ممالک کو غیر معمولی حالات میں انخلا ء کرنا پڑا۔ امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ نے اپنی اپنی حکومتوں کو آڑے ہاتھوں لیا کہ وہ کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور بیس برس تک جھک مارنے کے بعد بے نیل مرام ہی لوٹنا تھا، تو پھر کائے کو افغانستان پر قبضہ کیاتھا۔ طالبان کے افغانستا ن پر دوبارہ قابض ہونے کے واقعے نے جہاں مغربی دنیا کو سیخ پا کیا، وہاں ایک طبقے اس غم وغصے اور نامرادی کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش میں مسلسل جتاہوا ہے۔ بہت سارے ا سکالر اورمیڈیا ہاؤسز نے پاکستان کو کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا دلانے کی ٹھان رکھی ہے۔
شنگھائی کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے بھرپور کوشش کی کہ وہ تمام علاقائی طاقتوں کے تعاون اور اشتراک کے ساتھ افغانستان میں امن واستحکام کے لیے ایک روڑ میپ بنا سکیں۔تنہا پرواز کے بجائے سب کو ساتھ لے کرچلیں۔ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ اسی لیے ایک علاقائی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اسی تناظر میں چین، روس، تاجکستان اور ایران کی خفیہ ایجنسیوں کا اسلام آباد میں ایک اجلاس ہوا جس کی میزبانی آئی ایس آئی نے کی۔
وزیراعظم عمرا ن خان کو احساس ہے کہ افغانستان میں ایک بہت بڑا انسانی المیہ سراٹھانے کو ہے۔خوراک کا بحران، مالی مسائل اور ادویات کی کمی کاروباری زندگی کو مفلوج کردے گا۔ سردیوں کا موسم سر پر ہے۔ افغان حکومت کا خزانہ خالی ہے ۔ دنیا کے مالیاتی ادارے اور عطیات فراہم کرنے والی تنظیمیں ان سے منہ موڑ چکی ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی دنیا سے اپیل کی کہ وہ سیاسی مسائل یا افغان حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے مسئلہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانوں کی مدد سے الگ رکھیں۔ انہوں نے خبر دار کیا کہ اگر ہنگامی بنیادوں پر افغانستان کی مدد نہ کی گئی تو بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے گا۔ لاکھوں لوگ بھوک اور سردی کی وجہ سے موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے شنگھائی اور بعدازاں میڈیا انٹرویوز میں دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان کے پاس اس قدر وسائل نہیں کہ وہ تنہا افغانستان کی مدد کرسکے۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی کل آمدن پچاس ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ اتنے کم وسائل میں اپنے ملک کے بائیس کروڑ لوگوں کے منہ میں دو وقت کا نوالہ ڈالنا اور انہیں چھت فراہم کرنا مشکل ہوتاہے چے جائے کہ پڑوس میں جاری جنگ کی سرپرستی کرنا۔
کابل سے آنے والی ابھی تک کی خبریں حوصلہ افزاء ہیں۔ سب سے اطمینان بخش اطلاع یہ ہے کہ روس اور چین ابھی تک طالبان حکومت کے ساتھ رابطے برقرار رکھے ہوئے ہیں اورانہیں امید ہے کہ طالبان امن قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دوسری مثبت خبر یہ ہے کہ ابھی تک افغانستان میں کوئی قابل ذکر مزاحمت سر نہیں اٹھاسکی۔
اب کچھ بات ہوجائے شنگھائی کانفرنس پر:شنگھائی کانفرنس کی شکل میں علاقائی ممالک کو ایک ایسا فورم دستیاب ہے جہاں وہ اپنے مسائل کا حل مشترکہ طور پر مکالمے اور اتفاق رائے سے تلاش کرسکتے ہیں۔ چونکہ یہ ممالک ایک جغرافیائی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کے ایشوز جہاں ایک جیسے ہیں وہاں ایک دوسرے کے تعاون سے ان کا حل بھی آسانی سے تلاش کیاجاسکتاہے۔ اپنی تاسیس کے بعد سے بڑی حد تک شنگھائی تعاون کانفرنس نے اس علاقہ میں امن اور استحکام کو قائم رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔شنگھائی کانفرنس کی خوبی یہ ہے کہ بڑے ممالک نسبتاً کمزور یا چھوٹے ممالک پر دھونس جمانے اور انہیں مرغوب کرنے کے بجائے انہیں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ شنگھائی کانفرنس کے کرتا دھرتا ممالک اگرچہ روس اور چین ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے اپنے سیاسی فلسفے اور نظریاتی فکر کو دوسرے ممالک تک برآمد کرنے یا ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی کوشش نہیں کی ۔یہ طرزعمل اس تنظیم کی بہت بڑی قوت بن سکتاہے۔
سربراہی اجلاس کے اختتام پر علاقائی و عالمی سطح پر اس تنظیم کے کردار کو فروغ دینے کے لئے باہمی تعاون کی تیس دستاویزات پر دستخط کیے گئے۔خاص طور پر علاقائی امن و استحکام کا تحفظ، افغانستان کا استحکام، کورونا کے انسداد میں باہمی تعاون جیسے موضوعات پر شنگھائی تعاون تنظیم کے اس سربراہی اجلاس میں اتفاق رائے ہوا ۔ شنگھائی کانفرنس کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کو دنیا کے دیگر ممالک اور اقوام کے ساتھ زیادہ لچک دار طرزعمل رکھنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے ادارے کو بھی زیادہ فعال بنانا ہوگا تاکہ وہ اپنے اصل مقاصد کے مطابق سرگرم ہوسکے نہ کہ محض چند ممالک کے ہاتھوں کی لاٹھی اور جیب کی گھڑی بن کر رہ جائے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں