پیرس /کراچی (آئی این پی )نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی جانب سے اچانک دورہ پاکستان سے دستبرداری کے بعد پاکستان کرکٹ کی دنیا میں تنہائی کے ایک اور دور میں جانے کے خوف سے نبرد آزما ہے۔فرانسیسی نیوز ایجنسی کے مطابق پاکستان 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد کچھ سنبھلا تھا، لیکن نیوزی لینڈ کے فیصلے نے اس کے قدم ڈگمگا دیے ہیں۔وزیراعظم عمران خان خود انٹرنیشنل کرکٹ میں ہیرو کا درجہ
رکھتے تھے، لیکن اب انہیں اور پی سی بی کو پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے لیے بہت محنت کرنا ہوگی۔ کرکٹ رائٹر عثمان سمیع الدین کا کہنا ہے کہ پی سی بی کی موجودہ انتظامیہ اور اس کے وزیراعظم کے ساتھ قریبی تعلقات ہوتے ہوئے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ پاکستان سے باہر کم سے کم کرکٹ کھیلیں۔پہلا ٹاسک انگلینڈ کو یقین دلانا ہوگا جو اتوار کو فیصلہ کرے گا کہ وہ اگلے ماہ مردوں اور خواتین کی کرکٹ ٹیموں کو شیڈول کے مطابق پاکستان بھیجے گا یا نہیں۔ انگلینڈ کے دورے کے بعد دسمبر میں ویسٹ انڈیز کے ساتھ سیریز شیڈول ہے اور 1998 کے بعد پہلی بار آسٹریلیا کی ٹیم اگلے برس جنوری میں پاکستان کے دورے پر آئے گی۔عثمان سمیع الدین کے مطابق انگلینڈ دورہ نہیں کرے گا۔ غالبا آسڑیلیا بھی انکار کر دے۔کرکٹ فینز
کو بھی بڑے کھیل دیکھنے کا موقع ملا تھا جو ان سے چھن گیا۔ یہ ان کے تکلیف دہ بات ہے۔پی سی بی کے چیئرمین رمیز راجہ نے سنیچر کو تسلیم کیا کہ پاکستان کرکٹ پر بہت دبا ہے جو پہلی مرتبہ نہیں ہے اور لوگ اس کا مقابلہ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ آپ کی اور میری تکلیف ایک ہی ہے۔ جو بھی ہوا وہ پاکستان کرکٹ کے لیے اچھا نہیں۔ جتنا عرصہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی گئی اس دوران پی سی بی کو دو سو ملین ڈالرز کا نقصان ہوا۔پاکستان کو انٹرنیشنل ٹیموں کے آنے والے کرکٹ دوروں کے علاوہ 2024 سے 2031 تک ورلڈ کپ اور چیمپئن ٹرافی سمیت چھ بین الاقوامی کرکٹ ایونٹس کی میزبانی بھی کرنی جو کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔سابقہ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کو جاری رکھنا اولین ترجیح ہے۔سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا ہے کہ تمام کرکٹرز پی سی بی کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیں اپنی آنے والی نسل کو مزید تنہائی سے بچانے کے لیے راستہ تلاش کرنا ہوگا۔گذشتہ ایک دہائی میں نیوزی لینڈ پاکستان میں کھیلنے والی ہائی پروفائل ٹیم ہوتی۔ پاکستان نے 2009 سے اب تک جنوبی افریقہ، سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے کی ٹیموں کی میزبانی کی ہے۔سابق کھلاڑی نوشاد علی نے کہا ہے کہ پاکستان کو کرکٹ کی دنیا کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ نیوزی لینڈ کا فیصلہ غلط تھا اور میرے خیال میں اسی طرح پاکستان کو ہمدردی حاصل ہوگی۔ ہمیں اپنے میزبانی کے حق کو کھونا نہیں چاہیے اور دیگر ممالک کے ساتھ لابنگ کرنی چاہیے۔شاہد آفریدی نے کہا کہ پاکستان نے پچھلے سالوں میں بہت کچھ قربان کیا اور اس کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ہم نے ان کے لیے ضرورت سے زیادہ کیا۔ ہم نے کورونا کی وبا کے باوجود انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کا دورہ کیا اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی مثبت جواب دیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں