اسلام آباد(پی این آئی)سابق وزیر داخلہ اور چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ریفارمز (آئی آر آر) سینیٹر رحمان ملک نےکہاہے کہ طالبان کے افغانستان میں حکومت بنانےکےبعدپاکستان میں کچھ مذہبی گروہ شرعی قوانین نافذکرنےکامطالبہ اورکوشش کرسکتےہیں لہذا حکومت صورتحال سے نمٹنے کی حکمت عملی پہلے سے تیار رکھے۔
افغان طالبان کا حکومت بنانا یقینی طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر شدت پسندوں کو پاکستان میں متاثر کرے گا کیونکہ ٹی ٹی پی مکمل طور پر پاک افغان سرحد پر کام کر رہی اور داعش کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق رحمان ملک کا کہنا تھا کہ طالبان کا افغانستان پر قبضہ پاکستان میں کچھ مذہبی دھڑوں کی حوصلہ افزائی کرے گا کیونکہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کے نظریات مطابقت رکھتے ہیں،داعش اور طالبان کی جانب سے بنیاد پرستی کا ناسور نوجوان نسل کے خاص طور پر مدارس کے طلباء میں پھیلنے کا خدشہ ہے اور اس کے بدترین اثرات سابق فاٹا اور بلوچستان پر ہوں گے جہاں بھارت اور مغربی طاقتیں پہلے ہی پاکستان مخالف سازشیں کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ وقتا فوقتا پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے بارے میں وہ خبردار کرتے رہے ہیں،انتہاپسندی اور دھشتگردی کی جڑیں سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان جنگ سے جاکر ملتی ہیں،جب پاکستان نے سابقہ سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان جنگ کے دوران جہاد میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو ہزاروں جہادی سوویت یونین سے لڑنے کے لیے ہمارے ملک میں اترے،جب جنگ ختم ہوئی تو اس علاقے میں 300 مذہبی مدرسے تھے اور جب پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو یہ تعداد 23 ہزار تک پہنچ گئی تھی،حالانکہ تمام مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں تھے لیکن ان میں پڑھنے والوں کی برین واش کرنے کی کوشش کی گئی اور مذہب اور غربت کا استعمال کیا گیا،بچوں کو 15 ہزار سے 20 ہزار روپے میں بھرتی کیا گیا تھا اور انہیں خودکش حملہ آور کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا، انتہا پسندی کچھ مدارس سے ابھری ہے اور طالبان کے دونوں مضبوط دھڑے کے طلباء اکوڑہ خٹک کے ایک مدرسے سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں طلباء کو ایک خاص نصاب پڑھایا جاتا ہے۔سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ کریڈٹ ہماری فورسز کو جاتا ہے جو دہشت گردی سے نمٹنے میں کامیاب رہے اور پاکستان میں خودکش حملہ آوروں کی تعدد بتدریج کم ہوتی گئی، بنیاد پرستی کا پہلا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب ہم نے پراکسی وار کی اجازت دی اور مدارس کی دوڑ مختلف مذہبی مکاتب فکر نے شروع کی جن میں سے کچھ کو لیبیا اور کچھ کو سعودی عرب اور کچھ کو ایران نے سپورٹ کیا۔رحمان ملک نے زور دیا کہ ہمیں ڈی ریڈیکلائزیشن پروگرام کی ضرورت ہے اور وہ بین المذاہب ہم آہنگی کے بہت مضبوط حامی ہیں کیونکہ اگر مذہب کی بنیاد پر تصادم ہوا تو تہذیبوں کا تصادم ہوگا،میں نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے تمام مذہبی دھڑوں اور فرقوں کے علماء کو ایک نصاب پر متفق کر دیا تھا اور اسے نیشنل ایکشن پلان کی اعلیٰ ترین باڈی کے سامنے رکھا گیا تھا لیکن یہ معاہدہ تمام سیاسی جماعتوں اور تمام فرقوں کی اتفاق رائے کے باوجود ابھی تک نافذ نہیں ہوا جو بنیاد پرستی کو کم کرنے کے لیے ہمارے غیر سنجیدہ قومی رویوں کو ظاہر کرتی ہے، اس معاہدے پر بطور وزیر داخلہ میں نے ،مفتی منیب الرحمن ، قاری محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر یاسین غفاری، مولانا عبدالمالک اور مولانا نیاز حسین نقوی نے دستخط کئے تھے جسکا مسودہ آج بھی وزارت داخلہ کے پاس موجود ہے ،اگرآج اس معاہدے کو قانون سازی میں تبدیل کیا جائے تو یہ ملک میں فرقہ وارانہ مذہبی ہم آہنگی کو بڑھانے اور انتہاپسندی کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوگی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں