اِن ہائوس تبدیلی لائیں، لانگ مارچ نہ کریں، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پی ڈی ایم کو رائے دیے جانے کا انکشاف

لاہور(پی این آئی)اسٹیبلشمنٹ کی ایک وقت میں یہ رائے رہی کہ آپ اِن ہاؤس تبدیلی لائیں اور لانگ مارچ کی طرف نہ جائیں،لیکن پی ڈی ایم کی قیادت نے اسے تسلیم نہیں کیا، سینئر لیگی رہنما رانا ثنا اللہ کا دعویٰ ۔تفصیلات کے مطابق نجی ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما رانا ثنااللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ایک وقت میں یہ رائے رہی کہ آپ اِن ہاؤس تبدیلی لائیں اور لانگ مارچ کی طرف نہ جائیں

لیکن پی ڈی ایم کی قیادت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ جس وقت لانگ مارچ اور استعفوں کے حوالے سے پی ڈی ایم میں بات چل رہی تھی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا یہ مؤقف تھا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی مسلم لیگ ن پر تنقید کے جواب میں رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ بلاول جتنا مرضی چھپانا چاہیں حقیقت چُھپ نہیں سکتی، دوسروں کو سہولت کار کے طعنے دینے سے اپنی سہولت کاری چھپ نہیں سکتی۔رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ ہم پیپلز پارٹی پر نہ الزام لگانا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہمارا فوکس پیپلز پارٹی ہے، لیکن اگر پیپلز پارٹی اور بلاول حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتے ہیں تو وہ جلسوں میں نہیں لائی جاسکتی، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائیں ن لیگ سپورٹ کرے گی اور ہمارا ایک ووٹ بھی اس میں کم نہیں ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو ملا کر ہمارے پاس تقریباً 160 ووٹ ہیں اور بزدار حکومت گرانےکے لیےکم ازکم 20 سے 25 مزید ووٹوں کی ضرورت ہے، ترین گروپ کے لوگ کبھی بھی عدم اعتماد میں ساتھ دینےکے لیے تیار نہیں تھے، اگر وہ راضی ہوتے تو ہم ضرور اس پر پیش رفت کرتے، ترین گروپ اور چوہدری برادران نے ہم سے بات کر کے اپنا وزن بڑھایا تاہم وہ عدم اعتماد کے لیے کبھی تیار نہیں تھے۔رانا ثناءاللہ کے دعوے کے جواب میں پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں نہیں ہےکہ ایسی کوئی بات ہوئی ہے، البتہ یہ عمومی تاثر تھا کہ لانگ مارچ کا آپشن بہتر نہیں۔ قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ہم کوئی بات بند کمروں میں نہیں کہہ رہے جو کہنا ہے وہ جلسوں میں کہہ رہے ہیں، اگر شہباز شریف قومی حکومت کے مطالبے کریں گے اور یہ کہ 2023 کے انتخابات صاف شفاف ہوں گے تو اس کے معنی پہنانے کی ضرورت نہیں ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں