کراچی (پی این آئی ) کاروباری دن کے اختتام پر ڈالرکی قیمت میں کمی سامنے آئی ہے۔سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق انٹر بینک میں ڈالر 7پیسے سستا ہونے کے بعد 166روپے 91پیسے پر بند ہوا۔دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر 10پیسے کی کمی کے بعد 167روپے 90پیسے میں فروخت ہوا۔ جبکہ دوسری جانب وزارت خزانہ کا کہناہے کہ روپے کی قدرمیں کمی کی وجہ سے بیرونی قرضوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔وزارت خزانہ کا کہناہے کہ ملکی قرضہ میں اضافہ کی بنیادی وجہ سود کی مدمیں 75 کھرب روپے کی ادائیگیاں ہیں جو مجموعی قرضوں میں 50 فیصد اضافہ کی وجہ بنی ہے اس کے علاوہ روپے کی قدرمیں کمی کی وجہ سے بیرونی قرضوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ کوروناوائرس کی عالمگیروبا کے دوران جی ڈی پی کے تناسب سے پاکستان میں قرضوں کے حجم میں سب سے کم اضافہ ہواہے۔وزارت خزانہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ مالی اورزری پالیسیوں میں بڑی ایڈجسٹ منٹس کی گئی ہیں اورآئندہ چند برسوں میں قرضوں میں پائیدار بنیادوں پرکمی آئے گی۔وزارت خزانہ کے جاری کردہ بیان میں وزارت خزانہ کے ترجمان نے گزشتہ تین برسوں سے سرکاری قرضوں میں اضافہ پراپنے ردعمل میں مزید کہاہے کہ ان میڈیا رپورٹس میں قرضہ میں اضافہ کی درپردہ وجوہات کو نظرانداز کیا گیاہے قرضہ میں اضافہ کے حوالے سے درپردہ اقتصادی حقائق کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ترجمان نے بتایاکہ مالی سال 2018 کے اختتام تک مناسب کیش بفر کی عدم موجودگی میں مختصرمدت کے قرضوں کو ترجیح دی گئی تھی اورافراط زرکے دباو پرقابوپانے کے لیے قرضوں پرسود کی شرح بہت بڑھ گئی تھی۔حکومت نے سود کی ادائیگی کی مدمیں 57 کھرب روپے کی ادائیگی کی جو مجموعی قرضوں میں 50 فیصد اضافہ کی وجہ بنی ہے۔ترجمان نے بتایا کہ ماضی میں روپے کی قدر کو مصنوعی طوربلند سطح پر برقراررکھا گیاتھا جس سے ادائیگیوں میں توازن کابحران سامنے آیا، اس صورتحال کے تناظر میں مارکیٹ کی حرکیات کی بنیادپرروپیہ کی قدرکا تعین ناگزیرپالیسی انتخاب تھا، جس کی وجہ سے روپے کی قدرگرنے سے افراط زر اورشرح سودمیں اضافہ ہوا، جی ڈی پی نمو کی شرح میں کمی ہوئی جبکہ درآمدات پرٹیکسوں کی مدمیں محصولات میں کمی آئی، روپیہ کی قدرمیں کمی کی وجہ سے بیرونی قرضوں میں29 کھرب (20 فیصد) اضافہ ہوا۔یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ قرضوں میں یہ اضافہ نئے قرضہ کے حصول کی وجہ سے نہیں بلکہ روپے کی قدرمیں کمی کا نتیجہ ہے۔ترجمان نے بتایا کہ کووڈ۔19 کی عالمگیروبا کی وجہ سے اقتصادی سست روی کی کیفیت رہی جو بنیادی خسارہ میں زیادہ اضافہ پرمنتج ہوئی۔ پرائمری خسارہ کی ادائیگی کیلیے 35 کھرب (23 فیصد) کا قرضہ لیاگیادس کھرب (7 فیصد) کااضافہ حکومت کے ہنگامی ضروریات اورحکومتی بانڈز کی فیس اورحقیقی قدرمیں فرق کی وجہ سے ہے ۔حکومت نے کیش بفرقائم رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہ لینے کا انقلابی اوراقتصادی طورپردرست فیصلہ کیا جس کی وجہ سے صرف ایک بارقرضہ میں اضافہ ہواتاہم حکومت کے کیش میں اضافہ کی وجہ سے اسے متوازن بنایا گیا۔ترجمان نے بتایا کہ قرضہ کی سطح کوبہتراندازمیں سمجھنے کیلیے قرضہ کے قطعی قدرکی بجائے مجموعی قومی پیداوارکے لحاظ سے قرضہ کی شرح کی پیمائش کرنا چاہیے اس کی روشنی میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ کوروناوائرس کی عالمگیروبا کے دوران جی ڈی پی کے تناسب سے پاکستان میں قرضوں کے حجم میں سب سے کم اضافہ ہواہے۔مالی سال 2020 میں عالمی سطح پرجی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں میں 13 فیصد اضافہ جبکہ پاکستان میں محض 1.7 فیصدکااضافہ ہواہے،جون 2021 کے اختتام پر پاکستان کاجی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کاتناسب 4 فیصد کم ہواہے جو قرضوں کے بوجھ میں کمی کااشارہ ہیت۔رجمان نے کہاکہ گزشتہ تین برسوں میں قرضہ میں اضافہ بنیادی طورپر 19۔2018 میں مشکل مگر ناگزیر پالیسی ہائے انتخاب کے باعث ہواہے۔ اگر اس وقت مارکیٹ کی حرکیات کی بنیادپرایکسچینج ریٹ ،حسابات جاریہ کاخسارہ پائیدارسطح ، مناسب کیش بفر اورطویل المعیادوآسان قرضہ جات لیے جاتے توقرضوں کابوجھ مزید کم ہوجاتا کیونکہ موجودہ حکومت نے مالی وزری استحکام کیلیے جامع اقدامات کیے ہیں اخراجات پرقابوپایاگیاہے اورٹیکس ونان ٹیکس محصولات میں نمایاں اضافہ بھی ہواہے۔ترجمان نے بتایا کہ مالی اورزری پالیسیوں میں بڑی ایڈجسٹ منٹس کی گئی ہیں اورآئندہ چند برسوں میں قرضوں میں پائیداربنیادوں پرکمی آئے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں