اسلام آ باد (آئی این پی ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان کی خانہ جنگی پاکستان میں بھی داخل ہوسکتی ہے، پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں، افغان مہاجرین کے کیمپ ہیں، پاکستان پر افغانستان میں 10 ہزار جنگجو بھیجنے کا الزام احمقانہ ہے، پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، افغانستان پہلے اپنے مہاجرین کو واپس لے پھر پاکستان سے جواب طلبی کرے۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، پاکستان خطے کے امن میں شراکت دار ہے، ہم مزید کسی محاذ آرائی کاحصہ نہیں بننا چاہتے۔ امریکا کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان سے متعلق پاکستان کا مقف بالکل واضح ہے کہ افغان جنگ سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں، پاکستان نے افغان جنگ کا حصہ بن کر 70 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے، جب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو ملک میں خودکش حملے ہو رہے تھے، ہم امریکا کی جنگ لڑ کر اپنی معیشت کا نقصان کر رہے ہیں، امریکی امداد ہمارے نقصان سے کہیں زیادہ کم ہے، افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا الزام بھی ہمیں دیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان امریکا اور افغان قیادت سے بات چیت کے لئے تیار تھے اشرف غنی سے نہیں، اسی وجہ سے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہوتے رہے، پاکستان نے امریکا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا، جس کا اعتراف امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کیا، موجودہ صورت حال میں افغانستان میں امریکا اور نیٹو فورسز کے پاس طالبان سے مذاکرات کی صلاحیت نہیں رہی کیونکہ اب طالبان خود کو فاتح سمجھ رہے ہیں۔ اس لئے انہیں سیاسی حل کے لیے مجبور کرنا مشکل ہے، طالبان کے ساتھ اس وقت مذاکرات کرنے چاہیے تھے جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ نیٹو فورسز تھیں۔وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ افغان جنگ سے پہلے القاعدہ افغانستان میں تھی، پاکستان میں کوئی عسکریت پسند طالبان نہیں تھے، افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان میں بھی اس کے اثرات پڑیں گے، خانہ جنگی پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے کیونکہ یہاں بھی کثیر تعداد میں پشتون ہیں، وہ اس خانہ جنگی کا شکار ہوسکتے ہیں اور ہم ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔ پاکستان میں 30 لاکھ افغان مہاجرین پہلے سے موجود ہیں، اس صورت حال کے بعد مزید لاکھوں آجائیں گے، پاکستان کی معیشت مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں