حکومت نے تین سال میں 25ہزار نوکریاں دیں، 10ہزار سمریاں، 34کابینہ اجلاس ہوئے،وزیر اعلی بلوچستان

کوئٹہ (آن لائن )وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے کہ حکومت نے تین سال میں 25ہزار نوکریاں دی ہیں تین سال کے دوران 10ہزار سمریاں، 34کابینہ اجلاس ہوئے جن میں618ایجنڈا نمٹائے گئے 55بلز پیش اور ان میں ترامیم کی گئی ہیں حکومتی عہدیداروں نے 29اضلاع کے دورے کئے ۔44بل پاس ہوئے 107کا جائزہ لیا گیا سروس رولز میں98ترامیم کی گئیں ۔65بار مختلف اضلاع کے دورے 550سرکاری اجلاس ہوئے 340سیاسی ملاقاتیں ہوئیں ،انہوںنے کہا کہ صوبے کے 5آثار قدیمہ کو دوبارہ ریوائیو کررہے ہیںجبکہ متعدد نوادرات بیرون ملک سے واپس لائے گئے کوئٹہ میں17نئے پارکس بنائے جارہے ہیں ، کوئٹہ خضدار لسبیلہ گوادر سمیت دیگر علاقوں کے سیاحتی مقامات کے لئے ریسٹ ہائوسز سڑکیں سہولیات بنائی جارہی ہیں جبکہ ڈریگ ریس کے لئے کوئٹہ میں سہولت فراہم کی جائے گی ۔حکومت نے چار سو سے زائد سے نئی ٹرائی سائکل اور چنگ چی فراہم کرنے کا منصوبہ بنایاہے ۔ٹی ٹی سی دارالامان سمیت انسداد منشیات مراکز بنائے اور فعال کئے جارہے ہیں15سو نوجوانوں کو ٹریننگ دی جارہی ہے ۔حکومت نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ منظور کیا وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لئے کام کرے ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے اسمبلی وہ فورم ہے جہاں پر بات ہوتی ہے ریکارڈ کا حصہ بنتی ہے اگر ہم محلے یا کہیں اور تقریر کرتے ہیں تو اس کی اتنی اہمیت نہیں جتنی اہمیت اس فلور پر بات کرنے کی ہے انہوںنے کہا کہ بجٹ اجلاس کے دوران سیکورٹی فورسز نے بھی صبر وتحمل کامظاہرہ کیا اپوزیشن کی خواہش تھی کہ خون خرابہ ہو لیکن حکومت نے بجٹ کے لئے ایوان کے تحفظ اور نظم کو قائم رکھا ہم نے اپوزیشن سے بار بار کہا اور ہمارے نمائندے بھی ان کے پاس گئے کہ وہ ایوان اور اسمبلی کو عزت دیں مگر انہوںنے یہ نہیں کیا آج اپوزیشن کو اجلاس میں کٹوتی کی تحاریک لانی چاہئے تھیں وہ اپنا موقف رکھتے اور نشاندہی کرتے مگر بجٹ اجلاس میں ریکارڈ میں اپوزیشن خاموش ہے انہوںنے کہا حکومت اپنی تمام تر کارکردگی آن لائن کرے گی تاکہ عوام خوداسے دیکھیں تجزیہ کریں اور کارکردگی بہتر بنانے کی نشاندہی کریں ۔انہوںنے کہا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ اپوزیشن نے کہا کہ بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا جبکہ بجٹ منظوری سے پہلے کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس میں کونسے منصوبے ہیں کیونکہ یہ حکومت کی صوابدید ہے لیکن اپوزیشن کو کیسے پتہ چلا اور انہوںنے بجٹ تقریر سنے اور بجٹ پڑھے بغیر بجٹ کو رد کردیا اگر اپوزیشن بجٹ سننے آتی اور بعد میں رد کردیتی تو ہم جواب دیتے اگر وہ ہمیں قصور وار ٹھہراتے تو ہم قصور وار بھی ہوتے مگر بجٹ پیش ہونے سے قبل ہی بجٹ رد کردینے پر مجھے بہت حیرت ہوئی ۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں