وفاقی وزیرعلی زیدی نےبھی اپنی وزارت میں کمزوریوں کا اعتراف کر لیا

کراچی (پی این آئی) وفاقی وزیر بحری امور علی حیدر زیدی کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں تین سال سے پل بند کرنے پر کے پی ٹی افسران پر سیخ پا ہوگئے اور کہاکہ پانچ فٹ کا سوراخ بند کرنے میں 3 سال کیوں لگے؟۔انہوں نے سٹم کے کمزور ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میری وزارت میں کچھ کام ہوتے ہیں کچھ نہیں ، بہت سے اداروں سے این او سی ملتا ہے تو پھر جا کر کام ہوتا ہے،ایک سیکشن آفیسر اگر کوئی رکاوٹ لگادے تو سب کام رک جاتے ہیں، سپریم کورٹ نوٹس لے اور وزیر کو لوگوں کو معطل کرنے کے اختیارات دیئے جائیں۔وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی میں کے پی ٹی کا دورہ کیا، انہوں نے کے پی ٹی افسران پر برہمی کا اظہار کیا اور تین سال سے بند پل کی وجوہات طلب کرلیں۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے علی زیدی نے کہاکہ کے پی ٹی اور پورٹ قاسم کے پی آر ڈپارٹمنٹ کا 35 لاکھ روپے بجٹ ہے، لوگ سٹے پر یہاں بیٹھے ہیں اور کام کرنے کی عادت نہیں، نئے چیئرمین کے آنے کے بعد پانچ ماہ میں یہ پل بن گیالیکن کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں ان کی کارکردگی نہیں ہے،اگر ہمارے پاس اختیارات ہوں لوگوں کو نکال سکیں،پانچ ،پانچ سال سے لوگ سٹے آرڈر لے کر بیٹھے ہیں، پانچ فٹ کے شگاف کی وجہ سے فلائی اوور بند تھا،اس فلائی اوور کھلنے کے بعد پورٹ ٹریفک کی روانگی میں بہتری آئے گی۔وفاقی وزیرعلی زیدی نےکہا کہ 18ویں ترمیم پیپلزپارٹی نے کروائی تھی، مرتضی وہاب بتائیں کہ دو سال میں فشریز کا کرایا کتنا دیا ؟جبکہ ساحل سے 12 ناٹیکل مائل تک زمین صوبے کے پاس ہے، ماحولیات کا محکمہ بھی سندھ کے پاس ہے، ساڑھے 500 ملین گندا پانی روز سمندر میں ڈال رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کسی کو برا لگے یا اچھا میں کے پی ٹی کی زمینوں کو دیکھوں گا، کے پی ٹی کے لینڈ پر ٹیکنالوجی سٹی بناؤ ں گا، این اے 244 میں جو ترقیاتی کام ہوئے ہیں وہ سوشل میڈیا پر موجود ہیں ،کام جو ہوئے ہیں وہ بھی آپ دیکھتے رہتے ہیں،میں بالکل کے پی ٹی کی زمینوں کو دیکھوں گا،ایک ایک انچ کو دیکھوں گا، یہاں دوستیوں پر 15 لاکھ کی زمینیں ننانوے سال کے لئے لیز کردی گئیں اوریہی زمینیں کروڑوں روپے میں بیچی گئیں۔علی زیدی نےکہاکہ این سی او سی صوبوں کوگائیڈ کرتی ہے،وہی صوبوں کوویکسین بھی فراہم کررہی ہے، بنڈل آئی لینڈ پورٹ قاسم کی حدود میں آتا ہے،یہ حدود بھٹو صاحب نے خود واضح کی تھی،بنڈل آئی لینڈ پر نیوی بھی کے پی ٹی کے لیز پر تھی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں