وزیراعظم عمران خان کا اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کس کو دبائو میں لانے کیلئے کیا گیا؟ صحافیوں نے انکشاف کر دیا

اسلام آباد (پی این آئی) وفاقی وزیر اسد عمر نے گذشتہ روز اپنے ایک بیان میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کا عندیہ دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر کام میں رکاوٹ ڈالی گئی تو پھر عمران خان اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دس بارہ لوگوں کا گروپ بن گیا تو خبریں چل رہی تھیں اب تو حکومت گئی، خان صاحب نےان سے کہا کہ میں نے آپ کی ساری بات سن لی، وزیراعظم نےکہا کہ جان لیں کہ بلیک میلنگ نہیں چلے گی۔اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہعمران خان اقتدار سے چمٹنے والے نہیں، وزیراعظم اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں اور وزارتِ عظمیٰ کو مختصر کرسکتے ہیں۔ اسد عمر کے اس بیان کے بعد صحافیوں نے اس پر رد عمل کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔اس حوالے سے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں افتخار احمد نے کہا کہ اسد عمر نے عمران خان کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ درست ہیں ۔عمران اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے اور ان کو ڈرا رہا ہے کہ فوری انتخابات میں برطانیہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اقتدار میں آجائیں گے۔عصمت اللہ نیازی نے اپنے پیغام میں اسد عمر سے ہی سوال کرتے ہوئے کہا کہ تو اسد عمر صاحب آپ نے وزیر اعظم بننے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے نوبت یہاں تک پہنچا دی ؟جبکہ اسد عمر کے اسمبلیاں توڑنے کے بیان پر مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ یہ بات وہ بندہ کہہ رہا ہے جو ان ایک درجن افراد میں شامل ہے جو عمران کی جگہ وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھ رہا ہے۔اس کے علاوہ کالم نگار عمار مسعود نے اس حوالے سے وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی اسمبلیاں توڑنے کی دھمکیاں گیدڑ بھبکیوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں، خان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ جس طرح بائیس کروڑ لوگوں کو دھوکہ دے کہ اس کو وزیر اعظم بنایا گیا ہے اس طرح کا دھوکہ دوبارہ ممکن نہیں یہ شخص نہ کل وزارت عظمٰی کا مستحق تھا نہ مستقبل میں وزارت عظمٰی اس کا استحقاق ہو گا۔اسد عمر کے بیان پر گذشتہ روز صحافی و تجزیہ کار سلیم بخاری نے بھی بات کی اور کہا کہ مختلف حلقوں میں یہ بات پہلی ہی کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں، تاہم اب پہلی مرتبہ حکومتی صفوں سے بھی یہ بات کر دی گئی ہے۔ سلیم بخاری کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے یہ پیغام مقتدر حلقوں کو دیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ اگر انہیں ہٹانے کی کوشش کی گئی تو پھر وہ جاتے جاتے اسمبلیاں بھی توڑ جائیں گے۔ اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو پھر نئے انتخابات کروانا پڑیں گے۔ نئے انتخابات ہوئے تو پنجاب میں مسلم لیگ ن کلین سوئپ کر جائے گی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں