کس قانون کے تحت سرکاری افسران کو سوشل میڈیا گروپ چھوڑنے کے خطوط لکھے گئے ہیں؟ بلوچستان ہائی کورٹ نے رپورٹ طلب کر لی

کوئٹہ (آن لائن )بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا ہے کہ امریکہ میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں سوشل میڈیا نے دنیا کو گلوبل ویلیج میں تبدیل کردیا ہے سوشل میڈیا کے جہاں معاشر ے میں منفی پہلو ہے وہی پر مثبت تبدیلیاں رونما کرنے کی وجہ بن رہا ہے کسی بھی سرکاری ملازم کو سوشل میڈیا کا حصہ بننے یا نہ بننے سے نہیں روکا جاسکتا ہے اگر ایسا کیا جاتا ہے تو کل کیا حکومت یہ آرڈر بھی کر ے گی کہ سرکاری ملازمین ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی بتادے کہ انہوں نے کس قانون کے تحت سرکاری ملازمین کو واٹس گروپس اور سوشل میڈیا کا حصہ بننے سے روکا ہے یہ ریمارکس بلوچستان ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ کے ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس ظہیر الدین کاکڑ آئینی درخواست کی سماعت کے دوران دئیے ۔سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے او ر عدالت کو بتایا کہ حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو حکومت مخالفت سوشل میڈیا سے دور رہنے کے احکامات دیں تاکہ وہ حکومتی معاملات بہتر انداز میں چلائی جاسکے جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت ہم سوشل میڈیا کی افادیت اور اہمیت کو نظر انداز نہیں کرسکتے ہم اس کو اپنے معاشرے میں اصلاح کا ذریعہ بھی بناسکتے ہیں امریکہ میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کیاگیا ہے کیا یہاں ممکن نہیں ہے کہ ایسا ہی کوئی قانون وضع کیا جائے کہ جس میں تمام سوشل میڈیا استعمال کرنے والے افراد کا ریکارڈ مرتب کیا جائے اور ان کو میڈیا منفی اور مثبت استعمال سے متعلق بھی آگاہی دی جائے درخواست گزار نے عدالت عالیہ کی اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہ کہ وہ اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں حکومت بالکل مین سٹریم میڈیا کی طرح سوشل میڈیا کو بھی ریگولیٹ کریں اور ان کی باقاعدہ ہم اپنی رجسٹریشن کرانے کیلئے بھی تیار ہے اور اس سے حکومت کو جہاں شکایتیں ہے وہی پر ورکشاپس کے ذریعے سوشل ایکٹیویسٹ کی صلاحیتیں بڑھائی بھی جاسکتی ہے جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے کہاکہ سوشل میڈیا بہت آگے نکل گیا ہے جس کی افادیت اور معاشرے کے اکثر ایشوز کو اجاگر کرنے میں کردار کو نظر انداز نہیں کرسکتے آج اگر آپ سبزی فروش کے پاس بھی جاتے ہیں تو وہ آپ سے قانون اور آئین پر بحث کرنے کے قابل بن گیا ہے جس کی آگاہی کی وجہ میڈیا ہے تاہم اس میں اس با ت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس سے اکثر اسی خبریں وائر ل کی جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ہوتا اور اس کی وجہ ریگولیٹری اتھارٹی کا نہ ہونا ہے انہوں نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو حکم دیا کہ قانونی طور پر کسی بھی سرکاری ملازم کو سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی سمیت کوئی بھی شخص سوشل میڈیا کی استعمال سے نہیں روک سکتا یہ اس صورت کیا جاسکتا ہے جہاں ملک کی سلامتی کا سوال پیدا ہو سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی سے پوچھے کہ کیا وہ درخواست گزار کی جانب سے جمع کرائے گئے 19مختلف حکومتی خطوط جس میں افیسران کو ان کا گروپ چھوڑنے کا حکم دیاگیا ہے کی بابت پوچھا جائے کہ انہوں نے کس قانون کے تحت یہ خطوط لکھے ہیں اور افیسران کو گروپ چھوڑنے کا تحریری حکم دیا ہے وہ تحریری جواب کورٹ میں جمع کروادیں عدالت نے کیس کی سماعت 11مئی تک ملتوی کردی۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں