وفاقی افسران سے اعزازیہ کے احکامات واپس لینے کا تحریری حکم جاری کر دیا گیا

کوئٹہ (آن لائن )بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاہے کہ وفاقی حکومت کے آفیسران کوصوبے کے آفیسران کے مقابلے میں زیادہ مراعات اور تنخواہیں حکومت بلوچستان کس خوشی میں دے رہی ہے پچھلی سماعت پر عدالت عالیہ نے زبانی حکم دیاتھاکہ اضافی تنخواہوں کے حوالے سے فیصلہ کے باوجود مختلف دفاتر کے اہلکاروں کو اعزازیہ کے احکامات واپس لئے جائیں لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو ا اب تحریری

حکم دے رہے ہیں کہ یہ آرڈر واپس لیاجائے کیا جج کا بیٹا جج اور جنرل کا بیٹاجنرل اس بنیاد پر بنادیاجائے کہ وہ ان کے بچے ہیں نا کہ کارکردگی دیکھ کر ،سن کوٹہ کیا ہے ؟اس پر تو سپریم کورٹ بھی پابندی عائد کرچکی ہے اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو نظام پرطویل عرصے تک سرکاری ملازمین کے خاندانوں کا قبضہ ہوگا۔ یہ حکم بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمدکامران خان ملاخیل پرمشتمل ڈویژنل بینچ نے بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے دھرنے سے متعلق دائر کیس کی سماعت کے دوران دیا۔عدالت عالیہ میں درخواست گزار اقبال کاسی ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ عدالت کے قائم کردہ کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری (داخلہ) ارشد مجیدنے عدالت میں اپنی رپورٹ جمع کرائی اور بیان دیاکہ انہوں نے دھرنے کے منتظمین کے ساتھ مل کر مختلف مطالبات کے حوالے سے کمیٹیاں بنائی ہیں جس کی تفصیل وہ عدالت میں جمع کروارہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے بلوچستان سول سیکرٹریٹ اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر عبدالحق کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کا مطالبہ کیا ہے ؟کیاآپ وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن پرعملدرآمد چاہتے ہیں جس پر انہوں نے کہاکہ جی بالکل وہ چاہتے ہیں کہ اس پرمن وعن عمل ہو سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے ایڈووکیٹ جنرل ارباب طاہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان ایڈمنسٹریشن سروس کے آفیسران جو بلوچستان میں پوسٹنگ کے غرض سے آتے ہیں کیا وجہ ہے کہ ان کی مراعات اور تنخواہیں بلوچستان کے مقامی آفیسران سے اوپر رکھے گئے ہیں اورانہیں زیادہ مراعات دی جاتی ہے پچھلے سماعت کے دوران سیکرٹری فنانس یہ بیان دے چکے ہیں کہ یہ مراعات اور تنخواہیں وفاقی حکومت ان کو دے رہی ہے لیکن اس میں حقیقت نہیں ہے یہ مراعات آپ دے رہے ہیں اور دوسری جانب آپ کا کہناہے کہ حکومت کے پاس پیسے نہیں ہے شاہ خرچیاں اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بلٹ پروف گاڑیوں

کی خریداری ہورہی ہے ابھی دنیا کے جدید گاڑی تیار ہی نہیں ہوتی کہ وہ سول سیکرٹریٹ بلوچستان میں کھڑی ہوتی ہے حکومت شاہانہ خرچے کررہی ہے جبکہ دوسری جانب آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہے عدالت عالیہ کو سماعت کے دوران ایک شہری نے بتایاکہ صوبائی حکومت نے گزشتہ مالی سال اور اس سال تقریباََ 8ارب روپے گاڑیوں کی مرمت ،تیل اور خرید وفروخت پر خرچ کئے ہیں جوٹیکس ادا کرنے والے کے ساتھ ظلم عظیم ہے جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ہر ٹیکس ادا کرنے والے کو حق ہے کہ وہ اپنے ٹیکس کے پیسوں کے خرچ سے متعلق سوال اٹھائیں اور حکومت سے پوچھیں کہ پیسے کس طرح خرچ کئے گئے ہیں جسٹس محمدکامران خان ملاخیل نے سن کوٹے کے حوالے سے ملازمین کی جانب سے اٹھائے گئے سوال پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ کیسا مطالبہ ہے کہ جس میں گویانسل درنسل نظام میں موجود لوگوں کے خاندانوں کو رکھنے کی کوشش ہے چاہیے وہ قابل ہو یا نہ ہو کیا ایسا ممکن ہے کہ کل میرا بچہ یہ مطالبہ کرے کہ ان کے والد جج تھے تو وہ بھی جج بنیںگے چاہیے ان میں اہلیت ہو یا نہ ہویہ ضروری نہیں کہ جج کا بیٹا جج اورجنرل کا بیٹا جنرل بنادیاجائے یہ ان کی کارکردگی کو دیکھ کر فیصلہ ہوگا کہ وہ نظام میں کس عہدے کیلئے اہل ہے یا نہیں جبکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ آپ کوٹہ نہیں دے سکتے ملازمین کے نمائندوں کی جانب سے ہائوس ریکوزیشن کے حوالے سے رپورٹ پر عدالت عالیہ نے کہاکہ اس حوالے سے پالیسی وضع کیوںنہیں کی گئی ہے کہ کسی کو کچھ رقم دی جارہی ہے توکسی کو زیادہ دی جارہی ہے عدالت کوبتایاگیاکہ حکومت بلوچستان اپنے سیکرٹریز کو ہائوس ریکوزیشن کی مد میں تو 60ہزار روپے دے رہی ہے جبکہ انسکمب روڈ پر واقع قیمتی فلیٹس اور مکان کے کرایہ صرف25ہزار روپے وصول کررہی ہے ۔جسٹس محمدکامران خان ملاخیل نے اپ گریڈیشن اور

پی ایچ ڈیز الائونسز کے حوالے سے حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ اس حوالے سے کوئی قانون وضع نہیں یا صرف ڈگری کا ہونا ہی شرط قراردیاگیاہے اگر پی ایچ ڈی الائونس دیناہے تو اس شخص کو دیاجائے جو شخص فنانس کے شعبے میں کام کررہاہوں اور اس کی ڈگری فنانس ہی کی ہوں نا کہ انہوں نے مخصوص مراعات بڑھانے کیلئے پشتو،براہوئی یا بلوچی زبانوں میں پی ایچ ڈی کررکھی ہو جس شخص کا حق ڈگری الائونس بنتاہے وہ متعلقہ شعبے میں ہونا لازمی ہے انہوں نے اس بات پر حیرت کااظہار کیاکہ ایک طرف تودھرنے والے مطالبہ کررہے ہیں کہ محکمہ ترقی پانے کیلئے تعلیم کی شرط ختم کی جائے اورمیٹرک کی ڈگری رکھنے والے کو ترقی دی جائے جبکہ اپنے اسی مطالبات میں ان کامطالبہ ہے کہ ایک شخص جس نے بی اے کیاہے اس کو ترقی نہیں ملنی چاہیے جہاں پر ان کا فائدہ ہے وہاں وہ تعلیم کو نظرانداز کرنے کامطالبہ کررہے ہیں جہاں ان کانقصان ہے وہاں وہ تعلیم ہونے کے باوجود اس ملازم کو پیچھے رکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔کنٹریکٹ ملازمین کے حوالے سے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ کل ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ آیاہے جس میں واضح کیاگیاہے کہ کنٹریکٹ ملازمین کی تقرری کیسے ہوگی یہ عجیب طریقہ ہے کہ کوئی بھی وزیر جب عہدے پر آتاہے تو ان کو اپنے لوگوں کو ملازمتوں کے نام پر نوازناہوتاہے اور کنٹریکٹ بہترین ذریعہ اپنے محکمے میں ہوتاہے دو سال تک کنٹریکٹ پر رہتے ہیں جس کے بعد وہ مظاہرے شروع کردیتے ہیں کہ یہ پوسٹ ان کا حق ہے گلوبل پارٹنرشپ پروگرام کے اساتذہ کے حوالے سے کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری (داخلہ)ارشد مجیدنے عدالت کوبتایاکہ اس سلسلے میں حکومت بلوچستان کے پاس اساتذہ کی پانچ ہزار دستیاب پوسٹوں میں سے پوسٹ کاٹ کر ان کو مذکورہ پوسٹوں پر بھرتی کرنے کے عمل پر کام کررہے ہیں جسٹس محمدکامران خان ملاخیل نے عدالت میں موجود گرینڈ الائنس

کے داد محمد بلوچ کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کہاں ملازمت کرتے ہیں آج آپ یہاں کیا کررہے ہیں آپ کو تو اپنی ڈیوٹی پر ہوناچاہیے تھا تو انہوں نے کہاکہ مجھے عدالت نے طلب کیاہے جس پرعدالت نے کہاکہ آپ کو ہم نے نہیں بلایاہے آپ از خود آئے ہیں آپ کی آج کی تنخواہ آپ کے بچوں پر حرام ہوگئی ہے جو ملازم ڈیوٹی نہیں کرتا وہ اپنے بچوں کو حرام کھلا رہاہے آپ آج کی تنخواہ واپس جمع کرادیں کیاآپ سیاست کے علاوہ ڈیوٹی بھی کرتے ہیں جس پر انہوں نے بتایاکہ وہ رانی باغ میں بطور اسسٹنٹ باقاعدگی سے ڈیوٹی بھی کرتے ہیں ۔ عدالت نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ تمام ایسوسی ایشنز سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں جن کاکام صرف ویلفیئر کاکام کرسکتی ہے لیکن آپ لوگوں نے سیاست شروع کردی ہے ۔سماعت کے دوران جی ٹی اے بلوچستان کے صدر حبیب الرحمن مردانزئی نے استدعا کی کہ ان کو سناجائے تو عدالت نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کون ہے انہوں نے کہاکہ میں دھرنے کے شرکاء میں سے ہوں عدالت عالیہ نے استفسار کیاکہ آپ بطور کیاکام کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ میں ڈی ڈی او لورالائی ہوں جس پرعدالت نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپ یہاں کیا کررہے ہیں کیا جو حکم اساتذہ کو دیاگیاتھاکہ وہ امتحانی مراکز پر اپنی ڈیوٹیاں یقینی بنائیں کیا اس پرعملدرآمد ہوگیاہے جس پر انہوں نے عدالت کوبتایاکہ عدالتی حکم پرتمام اساتذہ ڈیوٹی پر چلے گئے ہیں جس پر عدالت نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیاآپ حلفیہ بیان عدالت میں دے سکتے ہیں کہ اس وقت تمام اساتذہ اپنی ڈیوٹی پر ہیں کوئی غیرحاضر نہیں ہے یا صرف سیاست ہمیں کرنی آتی ہے جس پر انہوں نے کہاکہ وہ پورے بلوچستان کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم جہاں ان کی ڈیوٹی ہے وہاں کے حوالے سے وہ حلفیہ بیان دینے کیلئے تیار ہے ۔عدالت میں سماعت کے دوران ایک پنشنر نے پیش ہوکر استدعا کی کہ پنشنرز کی تنخواہیں بھی بڑھائی جائیں جس پر نوٹیفکیشن

پڑھ کر سنایا گیا کہ اس میں پنشنرز کی تنخواہوں میں اضافے کا کوئی ذکر نہیں لہٰذا اس پرعملدرآمد نہیں کیاجاسکتا جس پر انہوں نے عدالت کوبتایاکہ کیا یہاں پر دھرنے اور احتجاج کرنے والوں کے مراعات ہی بڑھیںگے جس پرعدالت نے انہیں بتایاکہ جو نوٹیفکیشن ہے اس پر فی الحال بحث ہورہی ہے جس میں پنشنرز کیلئے کوئی اضافہ نہیں رکھاگیاہے ۔سماعت کے دوران صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل ارباب طاہر اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شہک بلوچ پیش ہوئے ۔کمیٹی کے سربراہ نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ مسلسل تین دن سے عدالتی حکم پر عملدرآمد کی خاطر دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اس لئے کیس کی اگلی سماعت طویل رکھی جائیں بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 19اپریل تک ملتوی کردی۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں