کوئٹہ(پی این آئی)آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بلوچستان کے رہنمائوں محمد رمضان اچکزئی، محمد یوسف کاکڑ،محمد رفیق لہڑی، عبدالحئی، ولی محمد کاکڑ،عبدالباقی لہڑی، محمد یار علیزئی ، ملک محمد آصف اور سید آغا محمد نے ایک مشترکہ بیان کے ذریعے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور
صوبائی حکومت سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ وہ صوبے میں کام کرنے والے گریڈ 01 سے 16 اور 17 کے ملازمین اور مزدور طبقے کی تنخواہوں میں 50فیصد اضافہ کرے تاکہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں آئین کے مطابق خوارک کے ذریعے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کا تحفظ کر سکے۔ کنفیڈریشن کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ ہم سب کے اقدامات اور رویے آئین اورقانون کے مطابق ہونے چاہیے۔ مزدوروں کو قانونی طور پر آئین اور آئی آر اے 2012 اور بلوچستان انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2010 کے تحت یونین کی رجسٹریشن اور اجتماعی سودا کاری ایجنٹ کا حق دیا گیا ہے جبکہ آفیسروں ، اساتذہ کرام سمیت سرکاری محکموں میں کام کرنے والے سول سرونٹ کو ایسوسی ایشن بنانے کا حق حاصل ہے۔ واضح رہے کہ آفیسروں اور دیگر ایسوسی ایشن کے عہدیداران دفتروں کو تالے لگا کر اور سڑکیں بند کرنے کا آئینی اور قانونی حق حاصل نہیں ہے اور اس سے تمام شہریوں کے حقوق متاثر ہو جاتے ہیں لیکن ایسی ایسوسی ایشنوں کو اپنی ڈیوٹیاں ادا کرنے کے بعد کسی بھی جگہ دھرنا دینے ، جلسہ کرنے کا آئینی اور قانونی حق حاصل ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مزدور یونین اور ایسوسی ایشنز کے درمیان گرینڈ الائنس اور اس کے ذریعے دفاتر کی تالا بندی اور اعلیٰ آفیسروں کیلئے مراعات مانگنے اور پھر ان آفیسروں کے ذریعے خود کو ڈیوٹیوں سے مبرا سمجھ کر عوام کیلئے دفاتر بند کرنے کے تمام اقدامات قانون کے دائرے میں نہیں آتے۔ کنفیڈریشن کے رہنمائوں نے کہا کہ اس وقت صوبے میں احتجاج کی سیکریٹریوں کی سطح کے اعلیٰ آفیسران قیادت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے کے قانونی کنفیڈریشنز،فیڈریشنز اور مزدور تنظیموں نے ایسے غیر قانونی فیصلوں اور احتجاج سے اپنی تنـظیموں کو دور رکھا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مزدور طبقہ اپنے جائز حقوق سے دستبردار ہوگا یا وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرکے اپنے قانونی حق حاصل کرنے میں ناکام ہوں گے۔ اس وقت
سیکریٹریٹ کے چیف سیکریٹری کو 02 لاکھ روپے خصوصی الائونس، تمام سیکریٹری کو ڈیڑھ لاکھ روپے خصوصی الائونس، سیکریٹریٹ الائونس، یوٹیلیٹی الائونس، عدلیہ کے ججوں کو لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور ان کے عملے کے بھی مزدوروں سے تین گنا زیادہ تنخواہیں دیئے جانے سے آئین کی دفعہ 25 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے اور اس خلاف ورزی کو اعلیٰ عدلیہ بھی دیکھ رہی ہے۔ کنفیڈریشن کے رہنمائوں نے کہا کہ ہمیں آئین، قانون ،سچ اور کھری بات کے ذریعے سے اپنے جائز مطالبات کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت صوبے میں لا قانونیت، رولز کی خلاف ورزی، کرپشن کا بازار گرم ہے۔ ہر قسم کے تعیناتیوں پر ماہانہ منتھلیاں اور تبادلے کی بنیاد پر بڑی بڑی رقوم لے کر آئے روز آفیسروں اور اہلکاروں کے تبادلے کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حب کے ڈی پی او کی تعیناتی یا تبادلے کا انسپکٹر جنرل پولیس سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ ان کا تبادلہ ایک خاص
شخصیت کی مرہون منت ہے اور ڈی پی او اس خاص شخصیت کے سامنے ہر ماہ حاضری دینے کا پابند ہے ۔صوبہ بلوچستان میں عوام کی محرومی اور استحصال کا سب سے تنزلی کا دور آج ہے اور آج پھر سے نواب ، سردار، خان، ملک ، ٹکری اکھٹے ہو کر انگریز کے دور کیلئے عوام کو تیار کر رہے ہیں کیونکہ اس دور میں انصاف، محاسبہ، ڈسپلن اور دوسروں کے حقوق کا احترام موجودہ تھا لیکن عوام کو چاہیے کہ وہ موجودہ جدید دور میں سیاسی پارٹیوں کو خاندانوں سے نکال کر جمہوری بنائیں اور انہی سیاسی پارٹیوں کے جمہوری جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق کا دفاع کریں۔ کنفیڈریشن کے رہنمائوں نے موجودہ چیف سیکریٹری کے آنے کے بعد ان کے اقدامات کو بھی پہلے چیف سیکریٹری کے سکہ شاہی کا تسلسل قرار دیا۔ چیف سیکریٹری بلوچستان اپنے ماتحت اداروں میں بہتری لانے کی بجائے کیسکو کے تباہی پر تل گئے جس کی واضح مثال گزشتہ دن زمینداروں کے ساتھ ان کی میٹنگ ہے۔ اس میٹنگ میں
اس نے زمینداروں اور حکومت کو کیسکو کے 400 ارب روپیبجلی کے بلوں کی ادائیگی کی بجائے کیسکو کو حکم جاری کیا کہ وہ زمینداروں کو مفت کی بجلی کی سپلائی جاری رکھے۔ مزید انہوں نے کیسکو کو دو حصوں میں تقسیم کا فارمولا نامعلوم جگہ سے لا کر یہاں مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چیف سیکریٹری کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک کمپنی کو دو حصے کرنے کے بعد ان کے اخراجات میں دوگنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت کیسکو کی اوپر سطح کے انجینئر، آفیسروں جس میں گریڈ18 ، 19 ،20 اور 21 کے آفیسران ہیں ان کی تعداد کم کروا کر کیسکو کے بلوں پر انتظامی بوجھ ختم کروا کر سستی بجلی صارفین کو فراہم کرنے میں کردار ادا کریں۔ کنفیڈریشن کے رہنمائوں نے حکومت بلوچستان کو متنبہ کیا کہ اگر انہوں نے صوبہ بلوچستان کے گریڈ 01 تا 17 کے ملازمین کی تنخواہوں اور الائونسز میں فوری طور پر اضافہ نہیں کیا تو کنفیڈریشن سے منسلک تمام یونینز ریڈ زون میں بجلی بندش کے ساتھ ساتھ پورے صوبے میں خدمات کے اداروں کی یونین کے ہڑتال کے قانون حق کا استعمال کریں گے اور بعد ازاں تمام تر ذمہ داری حکومت بلوچستان اور موجودہ چیف سیکریٹری پر عائد ہوگی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں