کوئٹہ(آن لائن)وزیر اعلی بلوچستان جام کمال نے اپنے ہی احکامات ہوا میں اڑا دیئے ،دفعہ 144کے نفاذ کے باوجود بڑی تعدادمیں لوگوں کی اجتماع منعقد کیا گیا ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے خود کورونا وائرس کی تیسری لہر کو دعوت دیدی ۔جمعہ کے روز وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان اپنی کابینہ کے ہمراہ اپنی ہی حکومت کے جاری کیے گئے احکامات ہوا میں اڑادیئے کورونا وائرس کی تیسری لہر کے پیش نظر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں 15روز کیلئے دفعہ
144کا نفاذ کیاگیا جس کے تحت 5سے زائد افراد کی اجتماع پر پابندی عائد کی گئی اوربلوچستان بھر کے سرکاری محکموں کیلئے کورونا سے بچاو کے سخت ایس او پیز جاری کیے جبکہ وزیر اعلی نے ہاکی میچ میں خود لوگوں کے ہجوم کو دعوت دیدی ایک طرف صوبائی حکومت کی بار بار کورونا کی تیسری لہر سے بچائو کی اپیل دوسری طرف وزیراعلی بلوچستان خود ہجوم کا حصہ بن گئے اور حکومتی ہدایات کو مکمل نظرانداز کردیاگیاصوبائی حکومت نے کورونا کی تیسری لہر کے پیش نظر تمام محکموں میں ماسک پہنے کو لازمی قرار دیا تھا جبکہ وزیر اعلی نے نہ خود ماسک پہنا اور نہ ہی دوسرے لوگوں نے۔۔۔۔ پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی، سینئر صحافی نے دلائل دیتےہوئے بڑا دعویٰ کر دیا لاہور(پی این آئی) پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی نہ ہونے کا امکان ہے، پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت اور سینیٹ میں زیادہ ارکان ہیں، پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر اسٹیبلشمنٹ سے خواہ مخواہ کی لڑائی نہیں چاہتی۔ سینئر تجزیہ کارطلعت حسین نے اپنے تجزیے میں کہا کہ پیپلزپارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بڑے پرانے ہیں، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بڑی طاقتور اور مقبول تھیں، لیکن پھر بھی وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرکے واپس آئیں، لیکن تعلقات سے مراد یہ نہیں سیاسی طور پرمکمل بچت ہوجائے گی۔آصف زرداری کے بڑے پرانے روابط ہیں، اس میں لڑائی ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔پیپلزپارٹی طاقت میں ہے، سندھ میں حکومت ہے سینیٹ میں زیادہ سیٹیں ہیں۔پیپلزپارٹی نہیں چاہتی کہ اسٹیبلشمنٹ سے خواہ مخواہ لڑائی جاری رکھے۔ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کے ساتھ ہاتھ کیا لیکن یہ احمقانہ فیصلہ کیا ۔اتفاق کرتا ہوں کہ ثاقب نثار جیسے لوگ جج بن جاتے ہیں، ان کو سیٹ کا تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اس سیٹ کو اپنی کھوکھلی عزت کیلئے استعمال کرتے ہیں، صرف ثاقب نثار نہیں ایسے کئی لوگ ہیں۔لیکن ایک دن عہدے کا تحفظ ختم ہوجاتا ہے پھر احساس ہوتا
ہے کہ اس بندے نے کیا کام کیے؟ حقائق قوم کو بتانے کی ضرورت نہیں، ان کو خود پتا ہے، اگر قوم کو حقائق نظر نہیں آرہے معاشی اور معاشرتی حقائق سمجھ نہیں آرہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے، اور پھر کوئی بڑا حادثہ ہی سمجھائے گا۔بہت سارے لوگ ملک سے باہر ہیں، ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں، وہ پاکستانی سیاست کو باہر بیٹھ کرحقائق دیکھنا شروع کردیتے ہیں، کہتے ہیں کہ اتنے بھی حالات خراب نہیں ہیں، لیکن جب وہ پاکستان میں رہیں گے تو پھر پتا چلے گا لوگ کس طرح رہ رہے ہیں، اگر مہنگائی، بجلی گیس کے بل نہیں سمجھا رہے تو پھر پتا نہیں کیسے سمجھیں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں