گیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر انتخاب کی ذمہ داری ن لیگ پر عائد ہوتی ہے، اپوزیشن جماعت کا بڑا دعویٰ

کوئٹہ (آئی این پی) نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی نے سینٹ میں کسی کو ووٹ نہیں دیا، گیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر انتخاب کی ذمہ دارمسلم لیگ (ن) ہی ہے، قومی قیادت نے اصلاح نہیں کی تو ملک میں کوئی بھی بڑا سیاسی حادثہ رونما ہوسکتا ہے، عمران خان کی

حکومت ہر محاذ پر عملاً ناکام ہوچکی ہے ان کی تمام پالیسیاں عوام دشمنی پر مبنی ہیں، ریاست مدینہ کی بات کرکے لادینیت اور قادیانیت کی سرپرستی کی جارہی ہے، حکومت احتساب کی بجائے کرپٹ مافیا کے سامنے سرنڈر ہوچکی ہے،باپ سرکار بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں شرمسار کردار ادا کررہی ہے لوگوں سے کاروبار اور روزگار کا حق چھین لیا گیا ہے، ملک اس وقت نظریاتی، اقتصادی اور آئینی بحرانوں کے گرداب میں ہیں، جماعت اسلامی نے انتخابی اصلاحات سے متعلق سفارشات تیار کی ہیں جنہیں تمام جمہوری قوتوں کے پاس لے جائیں گے، اقتدار کے حصول کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی سجدہ ریزی کو ختم کرنا ہوگا اور اسٹیبلشمنٹ کو صاف شفاف انتخابات خیرات کی صورت میں ہماری جھولی میں نہیں ڈالنے سے اجتنا ب کر نا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کو کوئٹہ میں جماعت اسلامی کے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے رہنماء اسد اللہ بھٹو، ہدایت الرحمن بلوچ، ڈاکٹر عطاء الرحمن، سیکرٹری اطلاعات عبدالولی شاکر ودیگر بھی موجود تھے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ وہ اسد اللہ بھٹو کے ہمراہ مرکز کی جانب سے بلوچستان میں آج بروز اتوار سیاسی و انتخابی کنونش میں شرکت، جماعت اسلامی کی بلوچستان کو حق دو تحریک سے متعلق صوبائی قیادت سے

بریفنگ لینے کے لئے کوئٹہ آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی بلوچستان کے عوام کے مطالبات کی نہ صرف حمایت کرتی ہے بلکہ ان کے حقوق کے حقوق کے لئے بھر پور اندا ز میں جدوجہد بھی کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کراچی کی عوام اکیلے نہیں پورا ملک ان کے ساتھ پشت پرہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک نظریاتی، اقتصادی اورآئینی بحرانوں کے گرداب میں ہیں جبکہ قومی قیادت پر مفادات پر ڈرامہ بازی کررہی ہے اور اگر قیادت نے اصلاح نہیں کی تو ملک میں کوئی بھی بڑا سیاسی حادثہ رونما ہوسکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت ہر محاذ پر ناکام اور نااہل ہوچکی ہے ان کی تمام پالیسیاں عوام دشمنی پر مبنی ہے ریاست مدینہ کی بات کرکے لادینیت اور قادیانیت کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ گیس، بجلی، تیل کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں مہنگائی اور بے روزگار بتدریج بڑھتی جارہی ہیں، ٹیکسز اور بلوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہورہا ہے جبکہ حکومت احتساب کی بجائے کرپٹ مافیا کے سامنے سرنڈر ہوچکی ہے احتساب صرف اور صرف انتقام اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لئے استعمال ہورہی ہے یہی وجہ ہے کہ احتساب سب کا نعرہ بے جان ہو کر رہ گیا ہے۔ عوام کو موجودہ حکومت سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بڑی امیدیں وابستہ تھیں مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا جبکہ صوبائی حکومت بھی لاپتہ افراد کی بازیابی میں ناکام

ثابت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبہ عملاً سست روتی کا شکار ہے باالخصوص بلوچستان کو اس منصوبے سے جو فائدہ ملنا چاہیے تھا وہ نہیں مل سکا اور حکمران بھی اس جانب سے کوئی سنجیدہ توجہ دینے سے قاصر ہے جبکہ بلدیاتی ادارے غیر فعال ہیں، پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے منہ پر ذلت آمیز طمانچہ ہے، کشمیر پر سودے بازی اور مودی کے ظالمانہ اقدامات معصوم کشمیریوں اور 22کروڑ عوام کے لئے المناک ہے، عمران خان نے سیاست میں بدزبانی، بدکلامی، تکبر اور غیرورکی سیاست کو فروغ دیا جس کی وجہ سے آج سیاست دہشت گردی، عدم برداشت بڑھتی جارہی ہے۔ لیاقت بلوچ کاکہنا تھا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت عوام کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی ہے اندرون سندھ کرپشن اورلاقانونیت عروج پر ہے بلدیاتی نظام ختم کردیا گیا ہے جماعت اسلامی کراچی اور بلوچستان کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑرہی ہے آج 28مارچ کو کراچی میں فقیدالمثال عوامی احتجاجی مظاہرہ کیا جائے اور وہ وقت دور نہیں جب کراچی اور اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے حکومتوں کے خلاف ایک بڑی تحریک اور ایک منظم احتجاج ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کسی بھی اتحادی کا حصہ نہیں ہے، سینٹ اور اسمبلیوں میں اپنے ہی پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے

تاہم ہم کسی اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔ بلوچستان کی عوام کو ہمیشہ دھڑوں، گروہوں اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتارہا ہے اور حکمران مفادات حاصل کرتے رہے ہیں جبکہ جماعت اسلامی ہی وہ واحد پلیٹ فارم پر ہے جو بلوچستان کی عوام کے حقوق کی حقیقی معنوں جنگ لڑرہی ہے اور ان کے حقوق کی دفاع کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باپ سرکار بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں شرمسار کردار ادا کررہی ہے لوگوں سے کاروبار اور روزگار کا حق چھین لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ انتخابات ہی عوام کے حقوق کا پاسبان ہے لیکن صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا عملاً کچومرنکال دیاگیاہے، جماعت اسلامی نے انتخابی اصلاحات کے لئے سفارشات تیار کی ہے اور یہ مسودہ ملک کے تمام جمہوری قوتوں کے پاس لے جائیں گے اور لوگوں کو قومی ڈائیلاگ کی طرف لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار کے حصول کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی سجدہ ریزی کو ختم کرنا ہوگا اور اسٹیبلشمنٹ کو صاف شفاف انتخابات خیرات کی صورت میں ہماری جھولی میں نہیں ڈالنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات 5سال کے لئے ہوتے ہیں جبکہ 1970سے ملک میں یہ 5سال ہولناک صورت اختیار کرگئے ہیں اور انتخابات کے مدت کو کم کرکے4سال کرنا ملک کی جمہوری ضرورت بن چکاہے، پارلیمنٹ مفلوج ہے اور ملک آرڈیننس نظام کے ذریعے چلایا جارہا ہے اسٹیٹ بینک کی قومی حیثیت

تبدیل کرکے اسے آئی ایم ایف کے تابع کردیا گیا ہے جماعت اسلامی مطالبہ کرتا ہے کہ قومی بین کی قومی حیثیت بحال کرکے مذکورہ آرڈیننس فوری طور پر واپس لی جائے۔ مساجد و مدارس پر قدغنوں سے گریز کیا جائے، عمران خان اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرے کیونکہ ان کے پاس کوئی وژن ہے اور نہ ہی کوئی ٹیم ہے قبل از وقت انتخابات نوشتہ دیوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے تمام سرکاری ملازمین سراپا احتجاج ہے جماعت اسلامی ملازمین کے تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے کی حمایت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت ملازمین کے تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ جماعت اسلامی نے سینٹ میں کسی کے حق میں ووٹ نہیں دیا تاہم گیلانی کے بطور پر اپوزیشن لیڈر انتخاب کی ذمہ دار مسلم لیگ (ن) ہی ہے کیونکہ اگر اپوزیشن لیڈرشپ کے لئے ن لیگ بھی درخواست فائل کرتی تو پھر ہی ووٹنگ کا مرحلہ آتا، سینٹ چیئرمین طرز پر جو طریقہ واردات اختیار کیا گیا وہی اپوزیشن لیڈر کے انتخابات کے موقع پر بھی اپنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کی ڈوریں کسی کے ہاتھ میں نہیں ہیں ہم دنیاوی طاقت سے ڈرنے والے ہیں اور نہ ہی ان کے محتاج ہیں ہماری ڈوریں براہ راست اللہ کے ساتھ ہیں۔ جماعت اسلامی ملکی میں بدامنی، بے روزگاری، مہنگائی کے خلاف بڑے

جلسے کررہی ہے اس کے بعد حلقہ جات کی بنیاد پر احتجاج کرے گی اور آخری مرحلے میں ملک گیر احتجاج سے متعلق پارٹی کی مرکزی شوریٰ ہی فیصلہ کرے گی۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں