اسلام آباد (پی این آئی) وفاقی حکومت حصہ داری پر مشتمل پنشن اسکیم لانے پر غور کر رہی ہے تاکہ پنشن کے اُس بڑھتے بل کو قابو میں لایا جا سکے جو جلد ہی سویلین سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے بھی بڑھ جائے گا۔ ایک ذریعے نے تیزی سے بڑھتے ہوئے اس بل کو ’’پنشن بم‘‘ کا نام دیا جو پنشن کے موجودہ نظام
کو بہتر اور تبدیل نہ کرنے کی صورت میں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں صورتحال بدتر ہے۔ حکومت نے پہلے ہی پے اینڈ پنشن کمیشن قائم کر رکھا ہے جسے یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ حصہ داری پر مبنی اس نئے پنشن سسٹم (Contributory Pension Scheme) پر غور کرے تاکہ موجودہ اسکیم سے ہٹ کر نئی اسکیم اختیار کی جا سکے کیونکہ موجودہ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ سرکاری خزانے پر بوجھ بنتی جا رہی ہے۔آئندہ سال کے پنشن بل کے متعلق اندازہ ہے کہ یہ وفاق کے تما م سرکاری ملازمین کیلئے تقریباً 470؍ ارب روپے تک جا پہنچے گا۔تما م سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا موجودہ بل تقریبا ً 700؍ ارب روپے ہے اور اگر اگلے بجٹ میں اس میں اضافہ ہوا تو تنخواہوں اور پنشن کے بل؛ دونوں میں اضافہ ہوگا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق، آئی ایم ایف کو توقع ہے کہ پاکستا ن اگر تنخواہوں اور پنشن کے اخراجات، حکومت چلانے کے اخراجات، دفاعی اخراجات اور سبسڈیاں کم نہیں کر سکتا تو انہیں ایک جگہ منجمد کر دے۔ڈان میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکومت ایسے ترقی یافتہ ممالک سے قرضوں میں نرمی کا مطالبہ کر رہی ہے جنہوں نے خود اپنی تنخواہوں میں ایک سے دو فیصد کمی کی ہے اور توقع کرتے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے والے ممالک بھی جواب میں ایسے ہی سخت اقدامات کریں۔آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگی کے سوا دیگر اخراجات کو قابو میں رکھے، حکومت خود بھی تنخواہوں اور پنشن کے بڑھتے اخراجات سے پریشان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف تنخواہوں اور پنشن میں ایک فیصد اضافے کی وجہ سے ہی وفاقی حکومت کو 10؍ ارب روپے کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کنٹری بیوٹری پنشن تجویز کے تحت، حکومت پنشن فنڈ کیلئے بنیادی رقم فراہم
کرے گی جس میں سرکاری ملازمین بھی حصہ ڈالیں گے۔ عمومی طور پر ایسے فنڈز کی رقم سے اسٹاک ایکسچینج اور شیئرز کے ساتھ دیگر طرح کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ فنڈ بڑھ جائے گا جس سے ریٹائر ہونے والے اور ریٹائرڈ افسران کی پنشن ادا کی جا سکے۔عمومی طور پر ایسی اسکیم میں فنانسنگ کے دو آپشن ہوتے ہیں جن میں سے ایک کا نام Pay As You Go ہے جبکہ دوسرے کو Fully Funded Mechanism کہا جاتا ہے۔ پہلے آپشن میں ملازمین اپنی موجودہ آمدنی کے مطابق حصہ ادا کرتے ہیں۔ اس سسٹم کے تحت جمع ہونے والی رقم فوری طور پر اس وقت ریٹائر ہونے والے ملازمین کی پنشن کی ادائیگی پر خرچ کی جاتی ہے۔حکومت اپنا حصہ ادا کرنے والے موجودہ ملازمین سے صرف یہ وعدہ کرتی ہے کہ وہ اس حصے کے عوض اس وقت سہولتیں دے
گی جب وہ ملازمین پنشن کے اہل ہو جائیں گے۔ دوسرے آپشن کے تحت ملازمین اپنے ہی اکائونٹ میں حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ اس سسٹم میں ملازمین کا ادا کیا گیا حصہ اس وقت ریٹائر ہونے والے ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کی بجائے مختلف کاروبار میں انوسٹ (بطور سرمایہ لگائی) کی جاتی ہے۔اس طرح سرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آمدنی بالآخر ملازمین کو ادا کی جاتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری اجارہ داری رکھنے والی سرکاری ایجنسی یا پھر مسابقتی لحاظ سے نجی شعبے کے ساتھ مل کر کی جاتی ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم کے مشیر برائے امور اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے دی نیوز کو بتایا کہ پنشن کے بڑھتے اخراجات حکومت کیلئے باعث پریشانی ہیں۔حکومت نے پے اینڈ پنشن کمیشن کا تقرر کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن پنشن کے معاملے میں اصلاحات لانے کیلئے تجاویز پیش کرے گی اور Pay As You Go کے طے شدہ حصے سے ہٹ کر پنشن فنڈ کے قیام کے حوالے سے تجاویز ملیں گی۔اس سے نہ صرف مستقبل میں حکومت مالی بوجھ سے بچ جائے گی بلکہ اس سے پاکستان میں کیپیٹل مارکیٹس میں وسعت بھی لائی جا سکے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں