پاکستانی سیاست میں بڑے پیمانے پر ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد کب پڑی؟ سینئر صحافی مظہر عباس کے اہم انکشافات

اسلام آباد(پی این آئی)ائیر مارشل اصغر خاں مرحوم نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان شیخ ریاض حسین کو خط لکھا تھا کہ1990 کے الیکشن میں سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے بارے میں ان کی درخواست کی جلد سماعت کی جائے کیونکہ خدشہ ہے کی جن پر الزامات ہیں ، وہ 2002 کے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں اور احتساب کا مقصد ختم ہوسکتا ہے،انہیں جلد سماعت کی اس درخواست کا کوئی جواب نہ ملا اور معروف کالم نگار اردشیر کاوس جی نے ایک کالم میں لکھا،’

‘انصاف سوگیا”روزنامہ جنگ میں مظہر عباس لکھتے ہیں کہ اصغر خاں جن کا شمار ملک کے دیانتدار ترین سیاست دانوں میں ہوتا تھا، کئی سال بعد اپنی درخواست پر انصاف دیکھے بغیر قبر میں جا سوئے اور کرپشن نے پاکستان کی سیاست کو اپنی گرفت میں لے لیا. 2012 میں سپریم کورٹ نے 1990 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر ایف آئی اے کو حکم دیا کہ وہ رقوم دینے اور لینے والوں کے خلاف کارروائی کرے لیکن گزشتہ سال ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی کہ رقم تقسیم کرنے والا کوئی بھی افسر ٹریس نہیں کیا جاسکا،اس لیے حتمی فیصلہ 27 سال گرجانے کے باوجود ابھی تک نہیں ہوسکا،اگر انصاف ہوتا اور ہوتا نظر بھی آتا تو ہم نے وہ نہ دیکھا ہوتا جو سپریم کورٹ میں حکومت کے اوپن بیلٹ سے سینٹ الیکشن کے بارے میں ریفرنس کی سماعت سے ایک دن پہلے ہم نے 2018کے الیکشن کے حوالے سے ویڈیو لیک میں دیکھا ہے، پاک فضائیہ کے سابق سربراہ نے 1994 میں سپریم کورٹ میں آئی ایس آئی میں پولیٹیکل سیل کی موجودگی پر اعتراض کیلئے بھی درخواست دائر کی، یہ سب 1990 کے الیکشن کے حوالے سے تھا جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے زبردست دھاندلی کا ایک بڑی ایجنسی پر الزام لگایا تھا، ان کی حکومت اٹھارہ مہینے سے زیادہ نہ چل سکی، اس عرصے میں تحریک عدم اعتماد کا بھی سامنا کیا، پہلی بار یہ الزام بھی سامنے آیا کہ دنیا بھر میں مطلوب اسامہ نے اس مقصد کیلئے دس ملین ڈالر دئیے، تحریک عدم اعتماد ناکام تو ہوگئی لیکن پاکستانی سیاست میں بڑے پیمانے پر ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد پڑ گئی،جہاں تک سیاسی نظام میں کرپشن اور ہارس ٹریڈنگ کا تعلق ہے، میں ہمیشہ مہران بنک کیس کو تمام کیسوں کی ماں کہتا رہا ہوں. تو اب اس ویڈیو لیک سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے، بس ایک اور جوڈیشل کمیشن،کیا دو پچھلی ویڈیوز کا کوئی نتیجہ نکلا، ایک جج ارشد ملک کی. اب اس تازہ ویڈیو سے کیا توقع رکھی جائے،شاید ایک جوڈیشل کمیشن اور اشک شوئی، وزیر اعظم عمران خان کو 2017 میں کروڑوں میں ضمیر بیچنے والے 20 ایم پی ایز کو نکال کر تاریخ بنانے کے کریڈٹ اور تازہ ویڈیو ایک دوسرے سے منسلک ہیں،لیکن ان کو ہٹانے کے بعد کیا ہوا؟ کیا ان پر مقدمات چلے، نااہل کیاگیا، سیاست میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی لگائی گئی؟ وزیر جب یہ کہتے ہیں کہ اوپن بیلٹ نہ ماننے سے اپوزیشن کو نقصان ہوگا تو وہ کچھ غلط نہیں کہتے، کیونکہ سینٹ الیکشن میں حکومت بہتر پوزیشن میں ہوگی،ایک دیکھنے والے نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ویڈیو ایڈٹ کی ہوئی ہوسکتی ہے، اس کا پتہ تو فورنزک آڈٹ سے چل سکتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نے خود ایسی ویڈیو کا انکشاف کیا تھا، اس کے باوجود ویڈیو میں نظر آنے والے بعض کردار پی ٹی آئی کی خیبر پختون خوا حکومت میں شامل ر ہے، اس سے قطع نظر کہ اوپن بیلٹ پر سپریم کورٹ کیا رولنگ دیتی ہے، گزشتہ 40 سال میں ہارس ٹریڈنگ نے پاکستان کے سیاسی نظام کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے،یہ بعض پارلیمنٹیرینز میں کرپشن کا وسیلہ رہی ہے، اس لئے غلاظت کی صفائی کی کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کرنا چاہیے بشرطیکہ یہ نیک نیتی سے ہو اور وقتی نہ ہو۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں