پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی کا ویڈیو سکینڈل آنے کے بعد پی ٹی آئی کے سینئر رہنمائوں پر الزامات، سینیٹر فدا محمد خان نے سابق رکن اسمبلی کیخلاف بڑا ایکشن لینے کا اعلان کر دیا

اسلام آباد (این این آئی)سینیٹر فدا محمد خان نے سابق ایم پی اے عبید اللہ مایار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کااعلان کردیا۔سینٹ ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے پی ٹی آئی سینیٹرفدا محمد خان نے اپنے بیان میں کہا کہ سابق ایم پی اے عبید اللہ مایار نے بے بنیاد الزامات لگائے،قانونی چارہ جوئی پر کرونگا۔انہوں نے

کہا کہ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ جمہوریت کے لئے شرمناک ہے۔انہوں نے کہاکہ ویڈیو میں سابق ایم پی اے عبیداللہ مایار کو واضح دیکھا جاسکتا ہے۔فدا محمد نے کہاکہ اول سے سینٹ انتخابات میں شفافیت عمران خان کا وژن ہے جسکا میں سپاہی ہوں،وزیراعظم عمران خان نے انکوائری کے بعد ہی اپنے 20 ایم پی اے پارٹی سے نکالے۔انہوں نے کہاکہ سابق ایم پی اے عبید اللہ مایار کے مجھے سے متعلق الزامات مضحکہ خیز ہیں،عبید اللہ مایار بتائے کہ انکو پارٹی سے کیوں نکالا گیا؟۔سینیٹر فدا محمد خان نے کہا کہ سابق ایم پی اے عبید اللہ مایار کا ماضی سب جانتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی سیاست میں الزام تراشی آسان ہے،کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے۔مجھے پیسے کس نے اور کب دیئے ؟ پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی عبید اللہ مایار نے تہلکہ خیز انکشافات کر دیئے ، پی ٹی آئی کے سینئر رہنمائوں پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی پشاور (آئی این پی )سینیٹ الیکشن 2018 کے لیے اپنا ووٹ بیچنے کے الزام پر خیبر پختونخوا کے وزیر قانون مستعفی جبکہ ویڈیو میں نظر آنے والے عبید مایار کا دعوی ہے کہ حکومت نے انہیں ترقیاتی کاموں کے لیے پیسے دے کر ویڈیو بنائی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں عبید مایارنظر آ رہے ہیں خیبر پختونخوا کے وزیر قانون سلطان محمد نے سینیٹ الیکشن 2018 میں مبینہ طور پر ووٹ بیچنے سے متعلق ایک وائرل ویڈیو کے بعد اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے ویڈیو کے معاملے پر ان سے استعفیٰ طلب کیا تھا، جس کے بعد سلطان محمد نے اپنا استعفیٰ دے دیا۔ سوشل میڈیا پر خیبر پختونخوا

سے تعلق رکھنے والے کچھ سابق اور موجودہ ارکان صوبائی اسمبلی کی ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں یہ ارکان ایک شخص سے پیسے وصول کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ویڈیو کے حوالے سے خبریں ہیں کہ اس میں دکھائی دینے والے ارکان اسمبلی نے سینیٹ الیکشن 2018 کے لیے مبینہ طور پر اپنا ووٹ بیچا۔ ویڈیو میں ایک نظر آنے والے پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن صوبائی اسمبلی عبید مایار بھی ہیں جو 2013 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن بعد میں ان کو 2018 کے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزام میں نکال دیا گیا۔برطانوی ویب سائیٹ کے مطابق مایار نے بتایا کہ انہوں نے پیسے ضرور وصول کیے لیکن یہ پیسے حکومت نے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے لیے دیے تھے ناکہ 2018 کے سینیٹ انتخابات کے لیے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ہر ایک رکن اسمبلی کو سپیکر ہاس میں فی کس ایک کروڑ روپے دیے گئے۔ پیسے حکومت نے دیے اور ویڈیو بھی بنائی۔ویڈیو میں پی ٹی آئی کے موجودہ صوبائی وزیر قانون سلطان محمد

بھی نظر آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے سینیٹ الیکشن 2018 میں ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنے 20 ارکان کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ان ارکان کی نکالنے کا اعلان وزیر اعظم عمران خان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ مذکورہ ارکان نے سینیٹ ووٹ بیچ کر چار، چار کروڑ روپے وصول کیے۔اس وقت پی ٹی آئی نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان ارکان کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ تاہم مقدمہ تو درج نہیں ہوا لیکن ان ارکان میں سے بعض نے عمران خان پر ہتک عزت کا مقدمہ ضرور دائر کیا تھا۔اس سارے معاملے کی تین سال بعد ویڈیو سامنے آئی ہے، جس میں وہ سابق ارکان اسمبلی بھی نظر آرہے ہیں جن کو پی ٹی آئی نے نکال دیا تھا۔ ویڈیو میں خیبر پختونخوا کے موجودہ وزیر قانون سلطان محمد بھی نظر آ رہے ہیں جو اس سے پہلے قومی وطن پارٹی کی سیٹ سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے

تھے۔ان کے علاوہ ویڈیو میں قومی وطن پارٹی کے سابق رکن اسمبلی معراج ہمایوں، پی ٹی آئی کی سابق رکن اسمبلی دینا ناز اور قومی وطن پارٹی کے سابق رکن اسمبلی سردار ادریس بھی نظر آرہے ہیں۔وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے سلطان محمد سے استعفی طلب کیا ہے۔ ٹویٹ کے مطابق انہوں نے معاملے کی شفاف انکوائری کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔اس ٹویٹ کے کچھ دیر بعد ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے سادہ کاغذ پر سلطان محمد کے استعفے کی کاپی شیئر کی ہے۔برطانوی ویب سائیٹ کے مطابق صوبائی وزیر قانون سلطان محمد اور معراج ہمایوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کال نہیں اٹھائی۔اس ویڈیو میں جو شخص مبینہ طور پر پیسے دے رہے ہیں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی محمد علی شاہ باچا ہیں، جو ضلع ملاکنڈ سے 2013 سے 2018 تک رکن خیبر پختونخوا اسمبلی تھے۔محمد علی شاہ باچا نے دعوی کیا یہ ویڈیو ایڈیٹ کی گئی ہے اور انھوں نے

سینیٹ انتخابات میں کسی کو پیسے نہیں دیے۔ باچا نے کہا ویڈیو میں یہ نظر نہیں آرہا ہے کہ میں نے کسی کو پیسے دیے ہیں۔ ایم پی ایز کو کوئی بھی خرید نہیں سکتا اور ہم اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیتے ہیں۔ادھر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سینیٹ کے گذشتہ انتخابات میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے کچھ ارکان نے پیسے لے کر ووٹ دیے۔ماضی میں ضمیر کی بولی لگتی رہی اور ووٹ بیچے جاتے رہے۔ موجودہ سینیٹ الیکشن شفاف بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ پوری کوشش ہے سینیٹ الیکشن میں شفافیت یقینی بنائی جائے۔شبلی فراز کے ہمراہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمرنے پریس کانفرنس میں کہا کہ ویڈیو میں ووٹ کے لیے نقد رقم وصول کی جا رہی ہے۔ ہم نے پہلے بھی سنا کہ سینیٹ الیکشن میں ضمیر کی بولی لگتی ہے اور ضمیر بیچے جاتے ہیں لیکن جب ایسا منظر آنکھوں سے دیکھا تو ضمیر والے ہر شخص کا دل دہل گیا۔ اسی لیے ہم سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کروانا

چاہتے ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ سینیٹ کے موجودہ الیکشن میں جو پیسے لے گا اسے فارغ کر دیا جائے گا، گذشتہ الیکشن میں 20 ارکان اسمبلی کو نکالا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جمہوریت کی طاقت کسی ٹینک ، توپ خانے یا بندوقوں سے نہیں ہوتی بلکہ نظام کو مضبوط بنانا ہوتا ہے، پارلیمان میں بیٹھے لوگوں کی اخلاقی قوت جمہوریت کی طاقت ہوتی ہے۔ ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق تین سال گزرنے کے باجود پی ٹی آئی نکالے جانے والے ارکان کے خلاف احتساب عدالت نہیں گئی۔ جب صحافی سے پوچھا گیا کہ اس وقت ویڈیو کی منظر عام پر آنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ تو انہوں نے کہا اس وقت وفاقی حکومت کا سینیٹ انتخابات کے حوالے سے آرڈیننس سامنے آیا ہے جس سے دوسرے سیاسی جماعتوں سمیت پاکستان تحریک انصاف بھی متاثر ہوگی۔ انہوں نے بتایا اس ویڈیو میں پی ٹی آئی کے موجودہ وزیر نظر آرہے ہیں جو 2018 میں قومی وطن پارٹی کی سیٹ پر ایم پی اے تھے لیکن بعد میں پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے اور ان کو وزیر بھی بنایا گیا گیا۔ ان کا نام ان

20 اراکین میں شامل نہیں تھا جن کو نکالا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے پاس ان 20 اراکین کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں تھے اور یہی وجہ تھی کہ ان کے خلاف ابھی تک کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جن 20 اراکین کو نکالا گیا تھا ان میں چند ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہیں تھے لیکن پی ٹی آئی نے رپورٹس کی بنیاد پر ان کو نکالا اور اب ثبوت سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں