ن لیگ کا برطانوی عدالت میں شہباز شریف کی جیت کا دعویٰ مگر دراصل کیس کا کیا بنا؟ تفصیلات آگئیں

اسلام آباد (پی این آئی) گذشتہ روز لندن میں شہبازشریف کے ڈیوڈ روز اور برطانوی اخبار ڈیلی میل پر ہتک عزت کے دعوے کی سماعت ہوئی۔ جس کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے اس ابتدائی سماعت کو جیت قرار دیا جانے لگا اور شہباز شریف کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔ اس معاملے پر صحافی و تجزیہ کار عمران

ریاض خان کے نام سے بنے اکاؤںٹ سے رد عمل آ گیا جس میں مسلم لیگ ن کو صورتحال واضح کرنے کی کوشش کی ۔مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں ٹویٹر صارف نے نجی ٹی وی چینل پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جیو نیوز کے مطابق تو شہبازشریف یہ کیس جیت چکے ہے لیکن کسی کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد کورٹ پروسیڈنگ کی اجازت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کیس کرنے والا یا Claimant یہ کیس جیت گیا ہے ۔صارف کا کہنا تھا کہ یہ باقاعدہ کیس کا آغاز ہوا ہے اور عدالت ٹرائل کا طریقہ کار طے کرتی ہے۔خیال رہے کہ گذشتہ روز برطانوی عدالت نے سابق وزیر اعلیٰ محمد شہبازشریف کے برطانوی اخبار ڈیلی میل پر ہتکِ عزت کے مقدمے کی ابتدائی سماعت کا فیصلہ سنایا تھا۔کوئنز بنچ میں شہبازشریف کے مقدمے کی سماعت ہوئی، جسٹس میتھیونکلین نے فیصلہ سنانے سے قبل وکلاء سے سوالات بھی پوچھے، جسٹس نکلین نے فیصلے میں کہا کہ صحافی ڈیوڈ کے مضمون کا فوکس شہبازشریف تھے، مضمون میں لکھا گیا کہ منی لانڈرنگ ہوئی، منی لانڈرنگ متاثرین میں برطانوی ٹیکس دہندگان بھی شامل ہیں، منی لانڈرنگ کی رقم سے شہبازشریف نے فائدہ اٹھایا، مضمون میں کہا گیا کہ شہبازشریف اور علی عمران کرپشن سے مستفید ہوئے، مضمون میں شہبازشریف کو برطانوی ڈیفڈ کا پوسٹر بوائے کہا گیا، اخبار کے مضمون میں لکھے گئے الفاظ شہبازشریف کیلئے ہتک عزت کا باعث تھے۔جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بھی گذشتہ روز برطانوی عدالت کی ابتدائی سماعت کو اپنی جیت قرار دے دیا تھا۔ جس کے بعد برطانوی

اخبار ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ شہباز شریف کے حوالے سے لندن کی عدالت کا آج کا فیصلہ مقدمے کا حتمی نتیجہ نہیں ہے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کیس سے متعلق ٹرائل ہونا ابھی باقی ہے ، آج کا فیصلہ مقدمے کا حتمی نتیجہ نہیں ہے ، عدالت کی جانب سے دیا گیا آج کا فیصلہ صرف مقدمے کے ٹرائل کی حدود کا تعین کرتا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں