پشاور(گل حماد فاروقی) پشاور کے مضافاتی علاقے چواں گجر میں قدرت کا ایک ایسا شاہکار ہے کہ اسے دیکھنے کیلئے دور دراز سے سیاح آتے ہیں۔ چواں گجر میں بڑ کا ایک ایسا درخت ہے جو دو ہزار سال پرانا ہے۔ چونکہ یہ درخت بہت ہی پراناہے اس کا قطر بیس میٹر سے زیادہ بنتا ہے۔ اس کی شاحیں ارد گرد پھیلی
ہوئی ہے اور ان شا حوں کو گرانے سے بچانے کیلئے قدرت نے اسی درخت ہی میں اس کا انتظام کیا ہوا ہے۔اس درخت میں اوپر سے اس کی جڑیں نیچے زمین میں آکر اور تناور درختیں بن چکی ہے اور یوں لگتا ہے یہ نیچے سے کسی نے اور درخت لگاکر اس پرانے درخت کو مدد دی ہے۔اس درخت کی ایک شاح قریبی مسجد میں بھی گیا ہوا ہے جس کی سایہ سے نمازی لطف اندوز ہوتے ہیں مگر اس شاح کو بھی گرنے سے بچانے کیلئے مسجد ہی میں اس درخت کا جڑ زمیں مین آکر درخت کی شکل احتیار کرچکی ہے اور یہ درخت نہایت سکون سے کھڑی ہے۔اس درخت کے قریب ایک بزرگ کا مزار بھی ہے جہاں لوگ فاتحہ حوانی اور دعا مانگنے کیلئے آتے ہیں تو ساتھ ہی اس درخت کا بھی نظارا کرتے ہیں۔ ایک مقامی شحص سناب گل کا کہنا ہے کہ یہ تاریحی درخت نہایت حطرے میں ہے کیونکہ اکثر لوگ یہاں آکر اس کی جڑیں کاٹتے ہیں جسے یا تو تبرک کے طور پر گھروں میں رکھتے ہیں یا اسی جڑی بوٹی کی طرح علاج معالجے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بارہا مطالبہ کیا کہ سرکاری ادارے آکر اس کی حفاظت کیلئے اس کے ارد گرد حفاظتی دیوار بنایا جائے تاکہ اسے مزید تباہی سے بچایا جاسکے۔پشاور یونیورسٹی میں شعبہ نباتات (باٹنی) کے سابق چئیر مین پروفیسر ڈاکٹر عبد الرشید نے بھی اس درخت کا معائنہ کیا ان کا کہنا ہے کہ یہ درخت
قدرت کا عجیب شاہکار ہے اور اس میں نہ صرف سیاحوں کی دلچسپی کیلئے بہت کچھ ہے مگر باٹنی کے طلباء اور طالبات کو بھی اس درخت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح انسان اور جانور سانس لیتے ہیں حوراک لیتے ہیں ان کے احساسات بھی ہوتے ہیں اسی طرح درخت بھی جاندار ہے اور ان میں بھی یہ ادراک موجود ہے کہ جب ان کو حطرہ محسوس ہو تو یہ درخت یا تو اپنے آپ کو بچانے کیلئے اپنی ہی جڑوں کا سہارا لیکر اسے زمین میں ڈال کر ایک اور درخت بنتا ہے اور ان کو نیچے سے ستون کی طرح مدد ملتا ہے یا پھر یہ درخت یا پودے فوری طور پر اپنا بیج زمین میں ڈال کر نیا پودا اور درخت اگاتا ہے۔ڈاکٹر رشید کا کہنا ہے کہ یہ درخت نہایت نایاب قسم کا درخت ہے اور اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے تاکہ اسے ضائع کرنے اور گرانے سے بچائے اور آنے والوں کیلئے اسے اسی حالت میں چھوڑے تاکہ ان کو قدرت کے اس عجیب کرشمے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے۔ ڈاکٹر رشید کا کہنا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس درخت کا عمر دو ہزار سال سے زیادہ ہے اور اگر حضرت انسان نے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تو یہ مزید کئی سو سال زندہ رہ سکتا ہے۔پروفیسر رشید نے مزید بتایا کہ درخت پشاور یونیوسٹی سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر پڑا ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ اس کیلئے کبھی باٹنی کے
طلباء آئے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ قدرت کے اس قیمتی عجوبے کو بچانے کیلئے حکومتی اداروں کو ضروری اقدامات اٹھانے چاہئے تاکہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔شعبہ نباتات کے ایم ایس سی کے طالب علم عبدلرب نے کہا کہ میری عمر پچیس سال ہوگئی مگر میں نے پہلی بار یہ درخت دیکھا ہمیں اس کے بارے میں معلو م ہی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس درخت میں باٹنی کے طلباء کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ جو نہ صرف سیر و تفریح کیلئے بہترین ذریعہ ہے بلکہ تحقیق کیلئے بھی اس میں بہت مواد دستیاب ہیں۔مقامی لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس نہایت پرانے اور عجیب الخلقت درخت کو بچانے کیلئے اس کے ارد گرد حفاظتی دیوار بنایا جائے اور اس کو کاٹنے اور گرنے سے بچانے کیلئے ضروری اقدامات اٹھایا جائے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں