اسلام آباد(آئی این پی) پینے کے صاف پانی کی کمی کی وجہ سے ملک بھر میں بوتلوں میں بند پانی کی صنعت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ پاکستان کونسل برائے تحقیقاتِ آبی وسائل، حکومتِ پاکستان ، وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی ہدایت پر بوتلوں میں بند پانی کی کوالٹی کی مانیٹرنگ ایجنسی طور پر کام کر رہی ہے۔ ہر سہ
ماہی کے اختتام پر پینے کے بوتل بند پانی کے مختلف برانڈزکی تجزیاتی رپورٹ پی سی آر ڈبلیو آر کی ویب سائٹ پر اور میڈیا میں شائع کر دی جاتی ہے ۔اکتوبر تا دسمبر 2020 کی سہ ماہی میں اسلام آباد،راولپنڈی کوئٹہ، گلگت، ڈیرہ غازی خان، ملتان، فیصل آباد، کراچی، بہاولپور،، ٹنڈوجام، سیالکوٹ، مظفر آباد اور لاہور سے بوتل بند/ منرل پانی کے 119برانڈز کے نمونے حاصل کیے گئے۔ ان نمونوں کا پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) کے تجویز کردہ معیار کے مطابق لیبارٹری تجزیہ کیا گیا۔ اس تجزیے کے مطابق 119میں سے 13 برانڈز پینے کیلئے غیر معیاری پائے گئے ۔ان 13 میں سے 5 برانڈز (ماسکوب، بلیو لائف، ون، ڈراپ آئس، اور بلیو پلس) کے نمونوں میں سوڈیم کی مقدار سٹینڈرڈ سے زیادہ پائی گئی۔ 3 برانڈز (ماسکوب، السفا، اور پیور نیچر ) کے نمونوں میںسنکھیا کی مقدار سٹینڈرڈ سے زیادہ پائی گئی۔2 برانڈز (ایکوا سواگ اور مور پلس ) کے نمونوں میںpHکی مقدار سٹینڈرڈ سے کم پائی گئی۔ اور 4برانڈز (میکوے، پرسٹن ون، الکلائن واٹر اور ایکوا سٹار) بھی جراثیم سے آلودہ پائے گئے جوکہ پینے کے لیے غیر صحت مند ہیں۔۔۔۔کرونا وبا کے بعد بلوچستان میں ایک اور وبا پھوٹ پڑیکوئٹہ(پی این آئی ) صوبہ بلوچستان کے ضلع چمن میں کرونا کے بعد ایک اور وبا نے سر اٹھالیا ہے اور سینکڑوں بچوں کو متاثر کردیا ہے۔لیویز ذرائع کے مطابق
چمن کے علاقے توبہ اچکزئی کےمتعدد گاؤں میں خسرہ کی وبا پھوٹ پڑی ہے، جس کے باعث ایک ہیخاندان کے تین بچے جاں بحق ہوگئے ہیں۔نجی ٹی وی اے آر وائےمطابق ڈی ایچ او چمن رفیق مینگل نے خسرہ کے باعث تین بچوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ متاثرہ گاؤں میں خصوصی ٹیمیں روانہ کردی گئیں ہیں۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سرحد پر واقع علاقے چمن میں خسرے نے وبائی صورت اختیار کر لی ہے، یہاں ہر سال خسرے کی وبا پھیلتی ہے تاہم اس سے بچاؤ کے لیے تا حال کوئی تسلی بخش اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔خیال رہے کہ خسرہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہونے والا وبائی مرض ہے جو بہت جلد پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، خسرے کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر محکمۂ صحت نے مرض کے خلاف مہم چلانے کا فیصلہ کیا تھا، وہ تمام بچے جن کی عمر 9 ماہ سے 5 سال تک ہے انھیں خسرے سے بچاؤ کے سرکاری مہم کے دوران حفاظتی ٹیکا لگایا جاتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں