ساڑھے تین سال بعد، قطراورسعودی عرب کے درمیان براہِ راست پروازیں بحال

ریاض (این این آئی )سعودی عرب اور قطر کی قومی فضائی کمپنیوں نے ساڑھے تین سال کے بعد اپنے پروازیں بحال کردیں اور دونوں فضائی کمپنیوں نے دوحہ اور الریاض کے درمیان پروازیں شروع کردیں ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق قطرائیرویز نے ٹویٹر پر اطلاع دی کہ 11 جنوری سے

الریاض ،14 جنوری سے جدہ اور16 جنوری سے الدمام کے لیے پروازیں چلارہے ہیں ۔اس نے مزید کہا کہ وہ سعودی عرب کے ان شہروں کے لیے اپنے بڑے طیارے چلائے گی۔ان میں بوئنگ 777-300، بوئنگ 787-8 اور ائیربس اے 350 شامل ہیں۔قطری کمپنی نے مزید کہا کہ ہم سعودی عرب میں اپنے تجارتی اور کاروباری شراکت داروں کے ساتھ مضبوط تعلق داری کے خواہاں ہیں۔اس کے علاوہ مملکت کے بڑے ہوائی اڈوں کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات کے خواہاں ہیں۔سعودی ائیرلائنزالسعودیہ نے بھی ایک ٹویٹ میں الریاض اور جدہ سے دوحہ کے لیے پروازیں بحال کرنے کی اطلاع دی ۔۔۔۔سعودی ولی شہزادہ محمد بن سلمان کا مستقبل کے شہر نیوم میں دالائن منصوبے کا اعلان، دا لائن 170 کلومیٹر پر محیط ہائپر سے مربوط نئی پٹی ہو گی اور فطرت کے عین مطابق ڈیزائن کیا جائے گاریاض (این این آئی )سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مستقبل کے شہر نیوم میں دا لائن کے نام سے ایک نیا شہری منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ مستقبل میں شہری سوسائٹیوں کا ایک منفرد جدید ماڈل ہوگا اور یہ جدت اور فطرت کے حسین امتزاج کا غماز ہوگا۔عرب ٹی وی کے مطابق شہزادہمحمد بن سلمان کی جانب سے جاری کردہ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ دا لائن 170 کلومیٹر پر محیط ہائپر سے مربوط ایک نئی پٹی ہوگی۔اس کو فطرت کے عین مطابق

ڈیزائن کیا جائے گا اور اس میں کاریں اور شاہراہیں نہیں ہوں گی بلکہ وہاں کمیونٹیوں کو مصنوعی ٹیکنالوجی سے آراستہ اور ہم آہنگ کیا جائے گا۔اس کی بدولت وہاں کے مکین اور کاروباریوں کو اپنا معیارِزندگی بلند کرنے کے مواقع میسرآئیں گے۔دالائن کا منصوبہ بھی نیوم اور سعودی عرب کے ویژن 2030 کا حصہ ہے۔اس سے ملازمتوں کے تین لاکھ 80 ہزار نئے مواقع پیدا ہوں گے اور اس کی بدولت سعودی عرب کی مجموی قومی پیداوار(جی ڈی پی)میں 2030 تک 180 ارب ریال کا اضافہ ہوگا۔انھوں نے بیان میں مزید کہا کہ پوری انسانی تاریخ میں شہران کے مکین شہریوں کے تحفظ کے لیے تعمیر کیے جاتے تھے لیکن صنعتی انقلاب کے بعد شہروں نے لوگوں پر کاروں ، مشینوں اور فیکٹریوں کو ترجیح دینا شروع کردیا۔جن شہروں کو دنیا کے جدید شہر کہا جاتا ہے،وہاں لوگ اپنی زندگیوں کے سالہا سال سفر میں گزار دیتے ہیں۔2050 تک ان کے سفر کا دورانیہ دگنا ہوجائے گا اور کاربن گیسوں کے اخراج میں اضافے اور سمندر کی سطح بلند ہونے کے بعد ایک ارب افراد کو محفوظ مقامات پرمنتقل کرنا پڑے گا۔تب تک 90 فی صد افراد آلودہ فضا میں زندگیاں گزار رہے ہوں گے۔سعودی ولی عہد نے اس منصوبہکا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم ترقی کے نام پر فطرت کو کیوں قربان کریں؟ ہرسال 70 لاکھ افراد کو آلودگی کی وجہ سے کیوں مرنا چاہیے؟ہر سال 10 لاکھ افراد کو ٹریفک

حادثات کی نذر کیوں ہونا چاہیے؟نیز ہمیں سفر میں سالہا سال وقت کے ضیاع کے رجحان کو کیوں قبول کرنا چاہیے۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close