اسلام آباد (این این آئی)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں اعتماد کا فقدان دکھائی دے رہا ہے ، پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کو نواز شریف کی واپسی سے مشروط کردیا ہے،سندھ حکومت سے کسی صورت وہ علیحدگی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں، 31 دسمبر آ گئی اور چلی
گئی، استعفے نہیں آئے، وزیر اعظم مستعفی نہیں ہوئے ، جنوری بھی آئے گی اور چلی جائے گی،ہم سیاسی عمل کے قائل ہیں، ہمیں آئین کی پاسداری کرنی ہے ، پارلیمنٹ کے فورم پر آئیے، ہم بات کر سکتے ہیں، اپنا ایجنڈا سانے رکھیے ، این آر او کو ایک طرف کر دیجیے اور احتساب کے عمل سے نجات کا جو منصوبہ ہے اسے ایک طرف رکھ دیجیے،محمد علی درانی کس کی نمائندگی کررہے ہیں، یہ تو وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں ہونے والے فیصلے سابقہ فیصلوں کی توسیع ہے کیونکہ فیصلے تو درپردہ ہو چکے ہیں، ان پر مہر لگنی ہے اور قائدین رائے ضرور دیں گے تاہم فیصلے ہو چکے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہاکہ فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے اجلاس میں یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ استعفے ہرگز نہیں دینے، ضمنی انتخابات میں ہر صورت حصہ لینا ہے، انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ سینیٹ انتخابات سے لاتعلق نہیں رہنا، یہ فیصلے وہ کر چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اپنا فیصلہ سنا چکی ہے کہ استعفوں کیلئے وہ فی الحال تیار نہیں ہیں، سندھ حکومت سے کسی صورت وہ علیحدگی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بہت بڑی سیاسی قیمت ہو گی اور وہ قیمت دینے کے لیے وہ ذہنی اور سیاسی طور پر قائل دکھائی نہیں دے رہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ڈی ایم میں یہ
فیصلہ کیا گیا کہ 31دسمبر تک تمام جماعتیں اپنے استعفے پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کو پیش کردیں، اس پر بھی آپ نے دیکھا کہ اختلاف رائے سامنے آیا اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ کہا کہ استعفے پی ڈی ایم کے صدر کو نہیں بلکہ اپنی جماعتوں کے قائدین کو دیے جائیں گے تو یہاں بھی ہمیں اعتماد کا فقدان دکھائی دے رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ 31 دسمبر آ گئی اور چلی گئی، استعفے نہیں آئے، آج کے اجلاس میں بھی مجھے استعفوں کا فیصلہ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔انہوں نے کہا کہ31 جنوری ایک اور تاریخ ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگر 31 تاریخ تک وزیر اعظم عمران خان مستعفی نہ ہوئے تو ہم اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے، ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا جائے گا، 31 جنوری بھی آئے گی اور چلی جائے گی، اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے کیا فیصلہ کیا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ پر بھی ایک شرط عائد کردی ہے، وہ پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دینے سے کترا رہے ہیں اور اندر کی کہانی تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے بہت سارے اراکین بالکل کسی تاریخ پر آمادہ دکھائی نہیں دیے اور انہوں نے لانگ مارچ کو نواز شریف کی واپسی سے مشروط کردیا ہے، تو مجھے یہ مسئلہ بھی کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک بات تو واضح ہے کہ
31 جنوری کو عمران خان مستعفی نہیں ہوں گے اور کیوں ہوں، ان کے پاس مینڈیٹ ہے، ایوان کا اعتماد ہے، عوام کے ووٹ ہیں، ان کے کہنے پر وہ مستعفی ہو جائیں، ایسا ہوا نہیں کرتا، سیاسی تقاضا اس کے برعکس ہے۔انہوںنے کہاکہ 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر اس دن کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے گڑھی خدا بخش پہنچتی ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ اگر آج ہونے والے اجلاس کو پی ڈی ایم کا اہم اجلاس قرار دیا جا رہا ہے تو بلاول بھٹو آج جاتی امرا میں دکھائی کیوں نہیں دے رہے، اگر اس اجلاس کی اتنی ہی اہمیت تھی انہیں بنفس نفیس اجلاس میں ہونا چاہیے تھا، اجلاس سے ان کی عدم موجودگی اس کی سنجیدگی کا پول کھول دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ دیکھیں کہ اجلاس میں راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی ان کی نمائندگی کریں گے اور یہ دونوں وہ شخصیات ہیں جو ہرگز استعفے کی قائل نہیں ہیں، راجہ پرویز اشرف کو خود اسمبلی کے رکن ہیں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ استعفیٰ ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے تو اسپیکر صاحب اور اسمبلی کا ایوان موجود ہے، آئیں مستعفی ہو جائیں۔انہوںنے کہاکہ اگر گیلانی صاحب سمجھتے ہیں کہ استعفیٰ ہی واحد راستہ ہے تو ان کے صاحبزادے پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں، وہ چلے جائیں اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کو اپنا استعفیٰ پیش کردیں تو اس سے سنجیدگی کا عملی مظاہرہ دکھائی دے گا، قوم طفل تسلیاں
سننے کو مزید تیار نہیں ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اجلاس میں ان شخصیات کو بھیجا جو قابل احترام تو ہیں لیکن بااختیار نہیں ہیں، میں پہلے دن سے کہتا آیا ہوں اور آج پھر دہرا دیتا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں بااختیار شخصیت آصف علی زرداری ہیں، باقی ان کے گرد طواف کرتے ہیں، فیصلہ وہ کرتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔شاہ محمود قریشی نے مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہم سیاسی عمل کے قائل ہیں، ہمیں آئین کی پاسداری کرنی ہے اور آپ آئے دن یہ درس دیتے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ سب سے مقدس فورم ہے تو پارلیمنٹ کے فورم پر آئیے، ہم بات کر سکتے ہیں، اپنا ایجنڈا سانے رکھیے لیکن این آر او کو ایک طرف کر دیجیے اور احتساب کے عمل سے نجات کا جو منصوبہ ہے اسے ایک طرف رکھ دیجیے۔انہوں نے اپوزیشن کے نام پیغام میں کہا کہ قومی نوعیت کے جو مسائل ہیں ان کو سامنے رکھیے، ان پر گفتگو ہو سکتی ہے، ہم سیاسی لوگ ہیں اور سیاست میں دروزے بند نہیں کیے جاتے۔انہوں نے کرک میں مندر کو نقصان پہنچانے کے واقعے پر چیف جسٹس کے نوٹس کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے مندر کو نقصان پہنچانے کے واقعے کی مذمت کی، ہمیں اس کا صدمہ ہے۔انہوںنے کہاکہ جن حضرات نے یہ کام کیا ہے یہ غیرذمے دارانہ حرکت کی ہے اور جے یو آئی کے رحمت خٹک کی قیادت میں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا
کیونکہ یہ آئین کے بنیادی حقوق سے یہ فعل متصادم اور آئین شکنی ہے جبکہ یہ ہماری اسلامی اقدار کے بھی برعکس ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں ہماری مساجد کا احترام کیا جائے اور ان کو تحفظ حاصل ہو تو پھر ہمیں مندروں، گردواروں اور گرجا گھروں کا احترام کرنا ہو گا، یہ اسلامی قدروں کے عین مطابق ہے۔پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے محمد علی درانی کی جیل میں مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کے حوالے سے سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ محمد علی درانی کس کی نمائندگی کررہے ہیں، یہ تو وہی بہتر بتا سکتے ہیں، میری ان سے ملاقات اور تبادلہ خیال نہیں ہوا، البتہ یہ میرے علم ہے کہ وہ تحریک انصاف کا حصہ نہیں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم استعفوں کا نہیں کہہ رہے، یہ فیصلہ ان کی قیادت نے کرنا ہے، انہوں نے فیصلہ کیا ہم نے آر اور پار کا فیصلہ کر لیا ہے، یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے الفاظ ہیں اور اس آر اور پار کو استعفوں اور انگ مارچ سے جوڑ دیا، یہ ایک عارضی اور غیرفطری اتحاد ہے جس کی ضروریات لوگ سمجھ گئے ہیں۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں