اسلام آباد (پی این آئی) سینئر صحافی حامد میر کا اپنے حالیہ کام میں کہنا ہے کہ خواجہ آصف کو ہمارے صاحب اقتدار دو سال پہلے گرفتار کروانا چاہتے تھے۔صاحب اقتدار کے دل میں مچلی یہی خواہش ان کا حکم بن کر نیب کے پاس پہنچی تو متعلقہ حکام نے خواجہ آصف کے بارے میں تحقیقات شروع کر دیں۔صاحب
اقتدار خواجہ آصف کو ہر صورت سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے تھے اور انہوں نے اپنی اس خواہش کو کابینہ کے اجلاس کی کارروائی کا حصہ بنا کر میٹنگز منٹس ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن کو بھجوائے۔ان کو کہا گیا کہ خواجہ آصف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا جائے کیونکہ انہوں نے وزیر دفاع اور ویزر خارجہ کے طور پر ایک غیر ملکی کمپنی کا اقامہ رکھا۔بشیر میمن نے انکار کر دیا۔پھر خواجہ آصف سمیت ن لیگ کے 50 سے زائد ارکان قومی اسمبلی کے خلاف انکوائری شروع کرا دیں۔انہی دنوں خواجہ آصف کو کہا گیا کہ آپ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں تو آپکے خلاف تمام انکوائریاں بند ہو جائیں گی تاہم خواجہ آصف نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا۔حامد میر مزید لکھتے ہیں کہ خواجہ آصف کو جب بھی نیب نے بلایا وہ اپنا ضروری سامنا ساتھ لے جاتے تھے کہ شاید انہیں گرفتار کر لیا جائے۔آپ سوچ رہیں ہوں گے ہمارے صاحب اقتدار نے خواجہ آصف کو گرفتار کرانے کے لیے اتنے جتن کیوں کیے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خواجہ آصف نے 2012 میں الزام لگایا تھا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کے نام پر اکٹھے کیے گئے فنڈز کی ایک بڑی رقم جوئے میں ہار دی گئی تھی اور یہیں سے خواجہ آصف کا پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی اختلاف ذاتی دشمنی میں بدل گیا۔حامد میر کے مطابق ایک دفعہ سینیٹر اور چھ دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے خواجہ آصف وزیر دفاع اور وزیر خارجہ رہے۔چاہتے تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے لیکن ان کی سیاست نواز شریف سے شروع ہو کر نواز شریف پر ختم ہوتی ہے۔ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے روابط اور کچھ صاحبانِ اختیار کے ساتھ تعلقات کو ہمارا صاحب اقتدار ہمیشہ اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں