جے یو آئی (ف) نے مولانا شیرانی، حافظ حسین احمد سمیت چا ر رہنمائوں کو پارٹی سے نکال دیا

 اسلام آباد (این این آئی)جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پارٹی فیصلوں سے انحراف کرنے پر مولانا محمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد سمیت 4 رہنماؤں کی پارٹی رکنیت ختم کردی۔پارٹی کے مرکزی ترجمان محمد اسلم غوری نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد، مولانا گل نصیب

خان اور مولانا شجاع الملک کو پارٹی سے خارج کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مرکزی مجلس شوریٰ کی انضباطی کمیٹی نے مولانا عبدالقیوم ہالیجوی کی صدارت میں یہ متفقہ فیصلہ کیا، جبکہ قائمقام امیر مولانا محمد یوسف کی صدارت میں مرکزی مجلس عاملہ اور صوبائی امرا و نظما نے اجلاس میں فیصلے کی توثیق کردی۔اسلم غوری نے کہا کہ جماعت سے خارج کیے گئے افراد کو فیصلے کی کاپیاں بھجوا دی گئی ہیں اور ان کے بیانات اور رائے کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔واضح رہے کہ 21 دسمبر کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینئر رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن سے اختلاف سے متعلق واضح جواب دیے بغیر کہا تھا کہ ہماری قسمت ایسی ہے کہ علما اور قومی زعما جب ان پر صاف ستھرا جھوٹ ثابت ہوجائے نہ وہ شرماتے ہیں نہ ان کے چہرے پر نہ آنکھوں میں کوئی تغیر آتا ہے، بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ تو حکمت عملی ہے اور جب وعدہ خلافی ان پر ثابت ہوجائے تو کھل کھلا کر کہتے ہیں کہ یہ تو سیاست ہے، رات گئی بات گئی۔ان کا کہنا تھا کہ جب دھوکا ثابت ہوجائے تو پھر بڑے آرام سے تکیہ لگا کر کہتے ہیں کہ یہ تو مصلحت ہے، جب خود غرضی ثابت ہوجائے تو کہتے ہیں کہ یہ تو دانائی ہے۔مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن

نے میرے ساتھ تو دھوکا نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی تحریک مخاصمت برائے مفاہمت ہے تاکہ ان کو بھی حصہ ملے۔دوسری جانب پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما حافظ حسین احمد نے ایک انٹرویو میںکہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن جس اسمبلی کو جعلی کہتے تھے وہاں سے صدارتی الیکشن لڑا اور ان کے بیٹے بھی وہیں موجود ہیں۔قبل ازیں نومبر میں نواز شریف کے بیانیے سے اختلاف کرنے پر جے یو آئی (ف) نے حافظ حسین احمد کو مرکزی ترجمان کے عہدے سے ہٹادیا تھا اور انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔حافظ حسین احمد نے نواز شریف کے کوئٹہ میں بیان سے اختلاف کیا تھا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں