اسلام آباد(پی این آئی )وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز اور وفاقی وزیر امور کشمیر‘گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے مولانا فضل الرحمان کے 1993 سے لیکر 2018تک مختلف ادوار میں اپنے بھائی ‘داما داور فرنٹ مینوں کے ذریعہ اربوں روپے مالیت کیبے نامی جائیدادیں بنانے‘ ڈیزل سمکلنگ‘ فنڈز میں بے ضابطگیوں اور کرپشن سے متعلق تفصیلات جاری کر دیں ہیں‘
تمام ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں ‘نواز شریف ‘ آصف علی زرادری اور مولانا فضل الرحمان کرپشن کے سلطان ہیں ‘پیسوں کی سیاست اوراراکین کو خریدنے کی سیاست متعارف کرائی ‘اس کے لئے کرپشن پر کرپشن کی گئی ‘اپوزیشن مقدمات واپسی ‘نیب قوانین میں منشاءکے مطابق تبدیلی کے ذریعہ این آر او مانگ رہی ہے ‘ اگر یہ مان لی جائے تو پی ڈی ایم جلسہ 13دسمبر سے ایک گھنٹہ قبل منسوخ کر دے گی۔ وہ پی آئی ڈی میں پریس کانفرس سے خطاب کر رہے تھے ۔ وفاقی وزراءنے میڈیا کو مولانا فض الرحمان کی جائیدادوں سے متعلق بتایا کہ ان کا ڈی آئی خان میں ایک گھر اور ایک پلاٹ‘ایف ایٹ ۔ اسلام آباد میں بنگلہ ‘دوبئی میں ایک فلیٹ ‘پشاور ‘کراچی اور کوئٹہ میں فلیٹس اور دوکانیں‘ڈی آئی خان پنیالہ میں ایک گھر اور 5 ایکٹر اراضی‘عبدالخیل ‘ڈی آئی خان میں ایک گھر /مدرسہ ‘5ایکٹر زرعیزمین‘شورکوٹ میں ایک گھر /مدرسہ ‘ 5ایکٹر اراضی ‘حال ہی میں مولانا فضل الرحمان نے سابق سینیٹر غلام علی اور اپنے داماد فیاض علی کے ذریعہ چک شہزار اسلام آباد میں 3ارب مالیت کی اراضی خریدی ‘ کمرشل ‘ انڈسٹریل ‘ ریزرو پراپرٹیز(نان بزنس ) مالیت 47لاکھ کمرشل
‘ انڈسٹریل ‘ ریزرو پراپرٹیز(نان بزنس )عبدالخیل ‘ڈی آئی خان مالیت 15لاکھ ‘کمرشل ‘ انڈسٹریل ‘ ریزرو پراپرٹیز(نان بزنس )شور کوٹ ‘ ڈی آئی خان مالیت 25 لاکھ ‘کمرشل ‘ انڈسٹریل ‘ ریزرو پراپرٹیز(نان بزنس )شورکوٹ ‘ ڈی آئی خان ‘ مالیت 7لاکھ ‘ریزور ہائوس ‘ عبدالخیل سدوزئی‘
مالیت 15لاکھ ‘ریزور ہائوس ‘ شورکوٹ ‘ڈی آئی خان ‘ مالیت 25لاکھ ‘5کنال پلاٹ شور کوٹ ‘ مالیت 7لاکھ ہے ۔ انہوں نے فرنٹ مین پراپرٹیز میں گل اصغر وزیر اینڈ سنز کے حوالے سے بتایا کہ گل اصغر وزیر اینڈ سنز خاندان مولانا فضل الرحمان کے ساتھ منسلک ہونے سے قبل انتہائی
غریب خاندان تھا ‘گل اصغر وزیر اور اسکے دو صاحبزادوں(نور اصغر اور نور رحمان) نے مولانا فضل الرحمان /ایم این اے کے اثرورسوخ سے مجموعی طورپر 3777کنال 6مرلہ اراضی حاصل کی جن کی تفصیلات یہ ہیں گائوں بھاب ‘ضلع ڈی آئی خان میں 39کنال 15مرلہ‘مقیم شاہ ‘
ضلع ڈی آئی خان میں 31کنال 15مرلہ ‘کیچ ‘ضلع ڈی آئی خان میں 220کنال 4مرلہ ‘ساگو جنوبی ‘ضلع ڈی آئی خان میں8کنال 13مرلہ رحمان ٹائون ‘ضلع ڈی آئی خان میں1کنال 12مرلہ‘ رتہ کلوچی ‘ضلع ڈی آئی خان میں 10کنال 20 مرلہ اراضی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نور اصغر ولد اصغر وزیر
کی گائوں بھاب ‘ضلع ڈی آئی خان میں 145کنال 2مرلہ‘حندان ‘ضلع ڈی آئی خان میں 164کنال 17مرلہ ‘ چتر‘ ضلع ڈی آئی خان میں 40کنال 4مرلہ ‘ مقیم شاہ ‘ضلع ڈی آئی خان میں 17کنال 6مرلہ ‘ حسام ‘ضلع ڈی آئی خان میں 49کنال 12مرلہ ‘یرک ‘ضلع ڈی آئی خان میں8کنال 11مرلہ ‘
کیچ ‘ضلع ڈی آئی خان میں97کنال 19مرلہ ‘ بدھ شرقی‘ ضلع ڈی آئی خان میں 58کنال ٰٰ6مرلہ ‘ محلہ عیسی ‘ضلع ڈی آئی خان میں 667کنال 5مرلہ ‘ رتہ کلوچی ‘ضلع ڈی آئی خان میں 4کنال 4مرلہ اراضی ہے ۔ سابق ڈی ایف او ‘ ڈی آئی خان موسی خان کا ڈی آئی خان میں ایک گھر ‘ایک کار
‘ڈی آئی خان شہر میں 4کنال کا ایک پلاٹ پہاڑ پور ‘ ڈی آئی خان میں ایک فارم ہائوس ‘ 2کرش پلانٹس ہیں ۔ زراعی اراضی میں ڈھکی میں 47کنال 6مرلہ‘متوالہ شاہ میں 112کنال 12مرلہ ‘ تیرگرمیں5کنال ساڑھے 10مرلے ‘راجان پور میں27کنال 10مرلہ جبکہ مجموعی
زراعی اراضی 192کنال ساڑھے 18مرلہ ہے ۔ حاجی جلال خان ولد اعظم خان کے حوالے سے بتایا گیا کہ مریالی تحصیل ڈی آئی خان میں 8کنال 2.5مرلہ‘ ساگو جنوبی ‘ ڈی آئی خان میں 3کنال 8مرلہ ‘شورکوٹ ‘ ڈی آئی خان میں 505کنال 3مرلہ‘تاکین ‘ ڈی آئی خان میں 17کنال 2مرلہ
‘جندا ‘ ڈی آئی خان میں 36کنال 7مرلہ ‘ کوٹلہ حبیب ‘ ڈی آئی خان میں 124کنال 13مرلہ‘ رکھگیس ‘ ڈی آئی خان میں 20کنال ہے ‘مجموعی اراضی 714کنال 12.5مرلہ ہے ۔ رجسٹری کارڈ کے مطابق 24جنوری 2009 ‘14فروری 2009 اور 31دسمبر2010 کو 1077کنال 14مرلہ
اراضی ٹرانسفر ہوئی ۔ انہوں نے عبدالرائوف (ماما) کے حوالے سے بتایا کہ عبدالرائوف (ماما) مولانا فضل الرحمان (نانکے) طرف سے خاندان کا حصہ ہیں ‘وہ بس کنڈیکٹر تھے اور ایم ایم اے حکومت میں ٹھیکوں میں شراکتدار شروع کی اور مفتی محمودہسپتال کی تذہین و آرائش کا ٹھیکہ
مرضی سے لیا ‘ایم ایم اے حکومت میں ضلع ناظم کا الیکشن لڑا اور منتخب ہوگیا‘ اپنے اس عہدے کے دوران اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور کلرکوں فضل بابر اور رحمت اللہ کے زریعے ذاتی فوائد حاصل کیے ۔ محمد اشرف علی خان ولد محمد شہزاد خان کے حوالے سے بتایا گیا کہ 26
جون 2005 کو صوبائی حکومت نے محمد اشرف علی خان (مولانا فضل الرحمان فرنٹ مین) کو 200کنال اراضی الاٹ کی ‘ یہ ہی اراضی مولانا فضل الرحمان کو بھی الاٹ کی گئی تھی ‘14اپریل 2017 کو یہ اراضی شریف اللہ ولد رحمت اللہ ساکن عبدالخیل تحصیل پہاڑ پور ‘
ڈی آئی خان کو منتقل کی گئی ‘اشرف علی خان گیلانی ٹائون نزد وینسم کالج ‘ ڈی آئی خان کے مالک ہیں جس کی رجسٹری مہر دین راجپوت کو رجسٹری نمبر 1997 ‘ بیعہ نمبر 4 کاپی نمبر 353 ‘تاریخ 17دسمبر 2014 کے نام پر رجسٹرڈہے ‘ یہ بنگلہ ڈاکٹر ذوالفقار عالم خان سے
خریدا گیا جس کی مالیت 2/3کروڑ ہے ‘ یہ بنگلہ مولانا لطیف الرحمان کے زیر استعمال ہے ۔ انہوں نے شریف اللہ ولد حاجی رحمت اللہ نے بتایا کہ شریف اللہ ایف سی کے ریٹائرڈ حوالدار تھے اور غریب گھرانے سے ان کا تعلق تھا ‘ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد وہ معدنیاتی
کانوں اور پیٹرول پمپ کے مالک بن گئے ‘ فرنٹ مین ریٹائرڈحوالدار شریف اللہ لطف الرحمان (فضل الرحمان کا بھائی ) محمود اینڈ کمپنی کے مالک ہیں ‘ان کی شیخ بادین ‘غوری تنگی گائوں چووندا پہاڑ پور جائیدادیں اور عبدالخیل میں ایک پیٹرول پمپ ہے ‘بطور مولانا فضل الرحمان فرنٹ مین
‘ شریف اللہ کو 200کنال سرکاری اراضی الاٹ کی گئی ۔ انہوں نے سابق سینیٹر غلام علی کے ناجائز اثاثہ جات کے حوالے سے بتایا کہ قصہ خوانی بازارمیں ڈیلکس ہوٹل ‘ 18دوکانوں کی ملکیت فیاض علی ولد غلام علی ‘زبیر علی ولد غلام علی(سنز) ‘موضع پٹوا بالا پشاور میں
سلیمان فلور‘جنرل مل کی ملکیت شمشاد کل دختر محمد گل‘زبیر علی ولد غلام علی‘ غلام فاروق ولد سبز علی‘ ورسک روڈ پر بابرک ویڈنگ ہال کی ملکیت غلام علی‘ ورسک روڈ پر 4کنال 6مرلہ رہائش کی ملکیت فیاض علی‘ شیر علی ‘اقراءولد غلام علی‘ورسک روڈ پر 16کنال 8مرلہ اراضی
کی ملکیت غلام علی‘ قصہ خوانی بازار 16دوکانوں کی ملکیت فیاض علی ولد غلام علی (فضل الرحمان داماد)‘ورسک روڈ 8کنال 9مرلہ اراضی کی ملکیت زبیر علی ولد غلام علی‘ پشاور ‘ایل آر ایچ کے قریب وارد فرنچائزڈکی ملکیت غلام علی‘ سکندر پور پشاور میں 5مرلہ گھر کی ملکیت
فیاض علی ‘ شیر علی ‘زبیر علی ولد غلام علی‘ قصہ خوانی بازار میں احمد شادی ہال کی ملکیت غلام علی‘ فروا چوک ‘پشاور میں دوکانوں کی ملکیت غلام علی‘ محمد علی ولد سبز علی ‘لال محمد‘ حاجی لال زمان ‘تاخیل بالا موضع میں 4کنال ایک مرلہ اراضی کی ملکیت غلام علی ولد سبزعلی ‘
فیاض علی ولد غلام علی ‘ زبیر علی ولد غلام علی ‘کمرشل شاپس (باجوڑی گیٹ)کی ملکیت ربی دختر غلام علی‘ فرواچوک میں 3کمرشل دوکانوں کی ملکیت غلام علی ولد سبز علی ‘ محمد علی ولد سبز علی‘حاجی لال محمد ‘ حاجی لال زمان ‘قصہ خوانی بازار میں دوکانوں کی ملکیت
غلام علی ‘ محمد علی ولد سبزعلی‘ حاجی لال محمد ‘ حاجی لال زمان ‘وزیر باغ روڈ پر 18 مرلہ اراضی کی ملکیت غلام علی ‘عمر علی ‘ حیات خان ولد سبز علی تہکل بالا پشاور میں ایک کنال اراضی کی ملکیت غلام علی‘ فلائنگ کرافٹ پیپر مل میں25فیصد شیئرز فیاض علی ولد غلام علی
‘فلائنگ کرافٹ پیپر مل میں25فیصد شیئرززبیر علی ولد غلام علی کے پاس ہیں ۔یونیورسٹی روڈ پر 150ملین کی سرمایہ کاری غلام علی نے کی ‘بلال ٹاؤن میں کمرشل عمارت کی ملکیت ذوالفقار علی ولد تلہ محمد ‘ زبیر علی ولد غلام علی کے پاس ہے ۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کی کرپشن
سے متعلق بتایا کہ آمدن سے زائد اثاثوں میں ڈی آئی خان میں ایک گھر ‘ ایک پلاٹ ‘ایف ایٹ اسلام آباد میں بنگلہ‘کراچی ‘پشاور اور کوئٹہ میں فلیٹس اور دوکانیں پنیالہ ڈی آئی خان میں 5ایکٹر اراضی ایک گھر ‘عبدالخیل میں 5ایکٹر زرعی اراضی ‘ایک گھر /مدرسہ شورکوٹ میں ایک
گھر /مدرسہ اوردوبئی میں ایک فلیٹ شامل ہیں ۔ فنڈز میں کروڑوں روپے کی بے ضابطگیوں سے متعلق بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے فنڈز میں کرڑوںروپے کی بے ضابطگیاں کیں ۔ بے نظیر بھٹو دور حکومت میں 1993-96 میں ڈیزل سمگلنگ میں ملوث رہ رہے ۔
محمود کمپنی مولانا لطف الرحمان اور حوالدار(ر) شریف اللہ (مولانا فضل الرحمان کے فرنٹ مین ) کی ملکیت ہے‘2002 میں مولانا فضل الرحمان کے ذریعے جنگلات کا وہ ایریا جو مائننگ کے لئے مختص تھا وہ لیز کرایا‘2015 میں لیز منسوخی کے باوجود مائننگ جاری رہی
‘2017 میں نئے ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر نے یہ معاملہ اٹھایا اور اگست 2019میں انکوائری شروع ہوئی ‘24ستمبر 2019 کو ایف بی آر ‘ڈی آئی خان نے شریف اللہ کو ٹیکس ریٹرنز کے لئے نوٹس جاری کیا۔ مولانا فضل الرحمان کو الاٹ ہونے والی غیر قانونی اراضی سے متعلق بتایا کہ ایم ایم اے حکوم
ت کے دوران صوبائی حکومت نے 136000کنال اراضی الاٹ کی ‘مشرف دور میں مولانا فضل الرحمان اور اکرم درانی کو 1200ایکٹر اراضی الاٹ ہوئی ‘شہداءکے لئے مختص جگہ ان کو غیر قانونی طورپر الاٹ ہوئی ۔ سابق ڈی ایف او موسی خان سے متعلق بتایا گیا کہ وہ جب مولانا فضل الرحمان
کے ساتھ منسلک ہوئے تو انہوں نے بھی کرپشن کے نئے ریکارڈ قاہم کیے جن میں بلین ٹری منصوبے کے تحت 9.9ملین پودوں کی تقسیم میں بے ضابطگیاں ‘ 6.7ملین پیکٹس کی تعمیر کے دوران پی سی ون کی خلاف ورزی ‘بلین ٹری منصوبے میں غیر قانونی طور پر ادائیگیاں اور
موسی خان اور بچوں اور بھیتیجے کو ادائیگیاں شامل ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ضیاءالرحمان (مولانا فضل الرحمان کے بھائی کی غیر قانونی تقرری کی گئی ۔2011میں مولانا فضل الرحمان کے فرنٹ مین کو 600ایکٹر زرعی اراضی الاٹ کی گئی (جو تحقیق اور بیجوں کی پیداوار کے لئے مختص تھی)۔
سابق سینیٹر غلا م علی سے متعلق بتایا گیا کہ سابق سینٹر غلام علی کے بیٹے کی مولانا فضل الرحمان کی بیٹی سے شادی ہوئی ‘1983-1990 میونسپل کارپوریشن پشاور میں کونسلربنا ‘2005میں ضلعی ناظم پشاررہا ‘ 2009-2016 کے دوران کے پی کے سے سینیٹر ‘2012-2015 ممبر بورڈ اف انوسمنٹ کے پی‘2012-15 سینٹ کی قائمہ کمیٹی ا
طلاعات و نشریات کے چیئرمین رہے اور اس دوران انہوں نے آمدن سے زاہد اثاثے بنائے ۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کی دیگر اراضی سے متعلق بتایا کہ 3640کنال اراضی مالیت 686ملین جو کہ مختلف ناموں پر تھی اسکی تفصیلات درجہ ذیل ہیں‘ ان میں 300ملین کی لاگت سے
10کنال کا بنگلہ اور ہمت گائوں300 کنال اراضی‘50ملین لاگت کا بابر کچا تحصل پروا میں 900کنال اراضی ‘50ملین لاگت کی رمک میں 350کنال اراضی پہاڑ پور میں اراضی ‘ 50ملین لاگت کی موضع شیخ راجو ڈی آئی خان میں 300کنال اراضی‘75ملین لاگت کی گڑھ رحمان
میں 1500 کنال اراضی‘64ملین لاگت سے گرڈ سٹیشن یرک میں 160کنال اراضی ‘ 62ملین لاگت سے موضع غلام کھوئی میں 125کنال اراضی ‘ 50ملین لاگت سے موضع مریالی میں 5کنال 2مرلہ مارکیٹ شامل ہے ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں