لاہور( این این آئی)تین سو ارب روپے کامیگا سکینڈل۔ جعلی آکشن گاڑیوں کے سکینڈل میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔ خرم گجر کے ملازمین اور فرنٹ مین قصور عباس، عرضی شاہ اور دیگر کی جانب سے تہلکہ خیز انکشافات سامنے آگئے ہیں۔تین سو ارب روپے کے میگا سکینڈل میں اینٹی کرپشن کی تحقیقات آخری مرحلے میں داخل ہو گئیں۔محکمہ ایکسائز
نے 4397 گاڑیوں کے مسنگ ریکارڈ کا تصدیقی لیٹر اینٹی کرپشن کو ارسال کر دیا۔سکینڈل کو حتمی نتیجہ پر پہنچانے کے لئے تین سو ارب روپے کامیگا سکینڈل میں ملوث۔ محکمہ ایکسائز کے افسران کو مزید تفتیش کے لئے طلب کر لیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ محکمہ ایکسائز لاہور نے 2015 سے 2018 تک نیلامی پر رجسٹر ہونے والی گاڑیوں کی تفصیلات کا ڈیٹا اینٹی کرپشن کے حوالے کر دیا ہے۔ایکسائز ڈیٹا کے مطابق 2015 سے 2018 کے دوران 7013 گاڑیاں آکشن وائوچرز پر رجسٹر ہوئیں۔خرم گجر کے ملازم قصور عباس کے نام پر 1290 گاڑیاں رجسٹر ہوئیں۔قصور اقبال نے اینٹی کرپشن کی تفتیشی ٹیم کو اپنے بیان میں ان گاڑیوں سے ہر قسم کی لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے ۔
تین سو ارب روپے کامیگا سکینڈل
سٹیمپ فروش علی عرضی شاہ کے نام پر تین سالوں میں 996گاڑیاں رجسٹر ہوئیں۔ اور اس نے بھی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے اپنے بیان میں تمام گاڑیوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے ۔دیگر فرنٹ مینوں طلال طیب اور عادل بٹ نے بھی اپنے نام پر رجسٹرڈ گاڑیوں سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ محکمہ ایکسائز کے پاس نیلامی کے نام پر رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے 4200 گاڑیوں کا سکین ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ جس کے باعث سال 2015 سے 2018 تک آکشن وائوچرزمتعلقہ ادروں کو تصدیق کے لئے بھیج دئیے گئے ہیں۔
نادرا سے خرید کنندگان کے مکمل کوائف بھی حاصل کئے جارہے ہیں۔ اینٹی کرپشن حکام کے مطابق اس ہوشربا سکینڈل میں ملوث محکمہ ایکسائز کے افسران اور دیگر مفادکنندگان نے سرکاری خزانے کو اب تک کی تحقیقات کے مطابق کم ازکم تین سو ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ ملزمان نے حساس ادارے کے نام پر جعلی نیلامی کی بنیاد پر غیر قانونی طور پر ہزاروں کمرشل گاڑیاں رجسٹرڈ کیں۔نہ صرف گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ جعلسازی ہوئی۔ بلکہ خریدنے والی عوام کے ساتھ بھی بڑا فراڈ کیا گیا۔ اینٹی کرپشن حکام کے مطابق محکمہ ایکسائز کے افسران سے حتمی تفتیش کے بعد چند دنوں میں انکوائری مکمل کر لی جائے گی۔ملکی تاریخ کے اس بڑے سکینڈل کے تمام حقائق جلد قوم کے سامنے رکھے جائیں گے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں