اسلام آباد (این این آئی) پبلک اکائونٹس کمیٹی نے ماہانہ بنیاد پر محکمانہ آڈٹ کمیٹی کا اجلاس بلانے اور رقوم کی جلد ریکوری کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے منصوبے شروع کرنے سے پہلے پرانے منصوبوں پر توجہ دی جائے جبکہ خواجہ آصف نے گھریلو صارفین کو گیس کی لوشیڈنگ پر سخت تشویش کا اظہار کرتے
ہوئے کہا ہے کہ ایل این جی ٹرمینل اور لگ جاتے تو گیس کی قلت پیدا نہ ہوتی،جو اداروں کا بیڑہ غرق کرے اسے بڑے عہدے پہ لگا دیتے ہیں، کسی کا نام نہیں لینا چاہتا سب جانتے ہیں کہ کے الیکٹرک کا ستیاناس کس نے کیا، گردشی قرضہ دو سال میں 900 ارب سے بڑھ کر 2200 یا 2400 ارب ہوگیا۔ بدھ کو پبلک اکاونٹس کمیٹی کا رانا تنویر حسین کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں پیٹرولیم ڈویژن اور اوگرہ کی آڈٹ رپورٹ 2019-20 کا جائزہ لیا گیا ۔ آڈٹ حکام نے بتایاکہ گیس کمپنیوں اور ریفائنریز کے زمہ 321 ارب سے زیادہ کے واجبات ہیں، یہ قرضہ جون 30 جون 2019 تک کا زیر التواء ہے۔ بتایاگیاکہ اب تک 185 ارب روپے سے زیادہ کی ریکوری ہوچکی ہے۔پی اے سی نے ماہانہ بنیاد پر محکمانہ آڈٹ کمیٹی کا اجلاس بلانے اورباقی رقوم کی جلد از جلد ریکوری کی ہدایت کر دی ۔ شیری رحمن نے کہاکہ گیس دستیاب نہیں، پاور سیکٹر کی بہت بری حالت ہے، سوئی سدرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیوں کی ایک جیسی حالت ہے، اسلام آباد میں بھی گیس دستیاب نہیں ہے۔ رانا تنویر نے کہاکہ نئے منصوبے شروع کرنے سے پہلے پرانے منصوبوں پر توجہ دی جائے، لوگ لکڑیاں چھوڑ کر گیس پر منتقل ہوتے ہیںلیکن کھانا پکانے کیلئے گیس دستیاب نہیں ہے۔ حنا ربانی کھر نے کہاکہ گردشی قرضے کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ رانا تنویر حسین نے کہاکہ گردشی قرضہ دو سال میں 900 ارب سے بڑھ کر 2200 یا 2400 ارب ہوگیا۔ خواجہ آصف نے کہاکہ ایل این جی ٹرمینل اور لگ جاتے تو گیس کی قلت پیدا نہ ہوتی۔ایم ڈی ایس ایس جی نے خواجہ آصف سے اتفاق کیا ہے ۔ خواجہ آصف نے کہاکہ موجودہ ایل این جی ٹرمینلز کا بھی پورا استعمال نہیں ہورہا۔ایم ڈی سوئی سدرن گیس کمپنی نے کہاکہ ٹرمینل سے زیادہ گیس پائپ لائن کی ضرورت ہے،پنجاب اور پختوانخواہ میں گیس کی طلب زیادہ ہے، اس وقت 1200 ایم ایم سی ایف ڈی کی پائپ لائن نہ کافی ہے، اس سے پنجاب میں گیس کی بڑھتی طلب پوری نہیں ہوسکے گی۔سیکرٹری پٹرولیم نے کہاکہ کراچی کو دسمبر تک اضافی گیس فراہم کی جائے گی۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں