گورننس کی راہ میں رکاوٹ کون؟ سینئر تجزیہ کار سہیل اقبال بھٹی کام کالم، بشکریہ روزنامہ 92

ُہائبرڈ وار میں دشمن کے تمام ترحملوں کے باوجود وطن عزیز کوایکسٹرنل کے بجائے انٹرنل سکیورٹی کے محاذ پر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ انٹرنل سکیورٹی کے عوامل میں گورننس ایک اہم ترین جزو ہے مگر بدقسمتی سے ہر گذرتے دن کیساتھ بیڈ گورننس کی نت نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ بیڈ گورننس کا یہ لاواخوفناک

نتائج کا باعث بنتا ہے۔گہر ی کھائی میں گرنے سے بچنے کیلئے سب کو اپنا اپنا کام تندہی سے کرنا ہوگا۔ کانفرنس ہال میں پن ڈراپ سائلنس طاری تھی۔ سیمینارمیں سکیورٹی امور کی ممتاز شخصیت کے لیکچر کے دوران میرے ذہن کو حالیہ بحرانوں اور حکومتی اقدامات نے جکڑ لیا۔ذ ہن میں سوالات کی یلغا ر ہونے لگی کہ آخر وزیراعظم کی کاوشوں‘ نوٹس درنوٹس کے باوجود مہنگائی کا جن قابو اورگندم درآمد کرنے کے باوجود آٹا سستا ہونے کا دعویٰ حقیقت کا روپ کیوں نہیں دھار رہا؟گڈ گورننس آخرکہاں ہے؟ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا اینٹ کا ریٹ بڑھنے پر نوٹس‘ اینٹیں نایاب ہونا تصورکیا جائے؟
خاکسار نے92نیوز کے ٹاک شوزمیں متعدد مرتبہ یہ معاملہ اٹھایا کہ وزیراعظم خان اور انکی ٹیم بحرانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے نوٹس‘ تحقیقات کی بھرماراور مافیا کا بھرکس نکالنے کے دعوؤں کا سلسلہ ترک کرکے صرف گندم کی قلت کی یکسوئی کیساتھ انکوائری کروائیں۔ان عناصر کی نشاندہی کریں جنہوں نے دسمبر 2019تک گندم ایکسپورٹ کرواکر عوام کی جیبوں سے 150ارب روپے نکالنے کا پلان بنایا۔ 7ماہ بعد بالآخرلندن سے مجرمان کو پاکستان میں لانے میں مصروف وزیراعظم کو یاد آگیا کہ انہوں نے گندم کی قلت سے بچنے کیلئے کب احکامات صادر کئے تھے۔ کابینہ اجلاس میں وزیر اعظم کی جانب سے یاد دہانی کرائی گئی کہ گندم کی قلت کو پورا کرنے کیلئے وزارت خوراک کو اپریل 2020میں گندم در آمد کرنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ہدایت کی گئی تھی۔وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کو ہنگامی بنیادوں پرعالمی مارکیٹ سے گندم درآمد کرنے کیلئے پیپرا رولز سے استثنیٰ دیا گیا۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو اجازت دی گئی کہ ٹینڈرز کی شرائط وضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سپلائر سے براہ راست گندم خرید کرپاکستان لائیں۔اپریل میں دی گئیں ہدایات کے بعد گندم ستمبراور اکتوبر میں پاکستان پہنچی۔وزارت نیشنل فوڈسیکورٹی کے حکام نے پہلے 14لاکھ ٹن گندم کی درآمدسے قلت پر قابواور آٹاسستا ہونے کی نوید سنائی۔ 5لاکھ ٹن گندم درآمد ہونے کے باوجود آٹا سستا نہ ہوا توپھر فیصلہ کیا گیا کی گندم کی قلت زیادہ ہے لہٰذا 18لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے۔ اب اچانک وزارت نیشنل فوڈسیکورٹی نے کابینہ کو بتایا ہے قلت پر قابو پانے کیلئے جنوری 2021تک 29لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی جس پر تمام ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی چھوٹ ملنے کے بعد120ارب روپے سے زائد لاگت آئے گی۔
کابینہ اجلاس میں انکشاف ہوا کہ عالمی مارکیٹ میں گندم کے نرخ کم ہونے کے باوجود وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی نے گندم درآمد نہیں کی جس کے نتیجے میں قومی خزانے اور عوام پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑا۔کابینہ نے گندم کی قلت کی تشخیص کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 19۔2018اور20۔2019کے کیر ی فارورڈ سٹاک کی مقدار کے حوالے سے استفسار کیا۔ ممبران نے گندم کی قلت کے باوجود گندم کی بر آمد کی اجازت دینے پر سوالات اٹھائے مگروزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کے حکام تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے۔ ممبران نے گندم کی بروقت در آمد نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے درست ڈیٹااکھٹا کرنے میں ناکامی اور سست فیصلہ سازی کو اس کی وجہ قرار دیا۔کابینہ کی جانب سے غفلت کا مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا گیا ہے۔گندم بحران سے متعلق غلط حقائق پیش کرنے پر وزیراعظم نے ایک اور انکوائری کا حکم دیدیا ہے۔
کابینہ کووزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے چینی کی قیمت اور چینی در آمد کرنے کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا جس کے تحت ٹی سی پی کے بحری جہاز کے ذریعے 50ہزار ٹن چینی 4نومبر‘25ہزار ٹن چینی 5نومبر‘ 25ہزار ٹن چینی 18نومبر اور26ہزار700ٹن چینی 30 نومبر کو پاکستان پہنچے گی۔صوبائی حکومتوں کی جانب سے فراہم کیے گئے دستیاب شدہ سٹاک کے اعداد وشمار کے مطابق 15ہزارٹن روزانہ کھپت کے تناسب سے 3دسمبر2020تک چینی دستیاب ہو گی۔جنوبی پنجاب میں کرشنگ کا موسم 10نومبرجبکہ شمالی پنجاب میں 15نومبرشروع ہونے کی توقع ہے۔صوبوں کی جانب سے ٹی سی پی کے ذریعے در آمد کی گئی چینی کی فروخت اور مسلسل کرشنگ سے ملک میں چینی کی طلب و رسد میں بہتری آئے گی۔ اس بہتری سے چینی کی قیمت 10سے 15روپے فی کلو سستی ہونے کی نوید سنائی گئی ہے۔ وزیراعظم نے وزارت خوراک کو اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد سسٹم میں بہتری کیلئے کھپت اور پیداوار کے درست اعداد وشمار کی رپورٹنگ‘ در آمد ی طریقہ کاراور صوبوں کے درمیان رابطے کو بہتر بنا نے‘مستقبل کی منصوبہ بندی سے متعلق رپورٹ تین ہفتوں میں طلب کرلی ہے۔
ملکی سیاست میں لندن کا ذکر معمول بن چکا ہے تو ذرا یہ بھی جان لیجئے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں شریف خاندان اور آصف علی زرداری سمیت سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثوں کا سراغ لگانے کیلئے نیب نے غیرملکی کمپنی براڈشیٹ کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں۔چند برس بعداحتساب کا عمل روک دیا گیا۔ نیب نے معاہدے سے انحراف کیاتو براڈ شیٹ نے لندن کی عالمی ثالثی عدالت سے ہرجانہ وصول کرنے کیلئے رجوع کرلیا۔اثاثوں کا سراغ لگانے والی غیرملکی کمپنی براڈشیٹ نیب کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں کیس جیت گئی۔ اب نیب کی درخواست پر وفاقی حکومت براڈشیٹ کمپنی کو ہرجانے کی رقم ادا کر نے کیلئے قومی خزانے سے 43کروڑ30لاکھ روپے جاری کرے گی۔شنید ہے کہ ہرجانے کی رقم کے اجراء کیساتھ احتساب کا عمل بدستور جاری رہے گا۔ بقول شاہد میر:
گنوائے بیٹھے ہیں آنکھوں کی روشنی شاہد
جہاں پناہ کا انصاف دیکھنے والے!!!

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں