لاہور( این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ مجھے پوری امید ہے کہ ہماری جدوجہد کے نتیجے میں حکومت کا جنوری سے بہت پہلے کام ہو جائے گا ،اداروں کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں اسی میں سوال کا جواب ہے ،ایک نا اہل شخص کو
سپورٹ نہ کیا جائے یہ سب رائیگاں جائے گا ، حکومت نے نواز شریف کو ہمدردی میں باہر نہیں بھیجا بلکہ ڈر تھا کہ اگر نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو یہ سنبھال نہیں سکیں گے،شہباز شریف سے کوئی اختلاف نہیں ، نظریے پر کوئی اختلاف نہیں اپروچ پر اختلاف ہو سکتا ہے ،مسلم لیگ (ن) کا اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ نہیں ہے،میاں صاحب کرداروں کی بات کرتے ہیں،حتمی بات پاکستان کے عوام سے ہو گی اور ان سے ہو رہی ہے،ادارے سسٹم میں اسٹیک ہولڈرز ہیں لیکن بات چیت میںانہیں اسٹیک ہولڈرنہیں ہونا چاہیے ، اگر وہ سیاسی بات چیت کرتے ہیں تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا ،ادارے بہت محترم اور مقدس ہیں اور رہنا چاہیے ، جب پاکستان کی نظر میںہارے ہوئے شخص کوسپورٹ کرینگے تو پھر ادارے متنازعہ ہوں گے ۔ نجی ٹی وی کو دئیے گئے انٹر ویو میں مریم نواز نے کہا کہ والدہ کے انتقال کے بعد میاں صاحب دوبار ہ جیل چلے گئے ، میرا والدہ سے انس تھا اور مجھے ان کے انتقال کے صدمے سے باہر آتے آتے وقت لگا ۔والدہ کو حراست میں ہارٹ اٹیک ہوئے ۔ میں صرف یہ سوچتی تھی کہ میرے کچھ کہنے سے میرے والد پر سختی نہ آئے ، میری وجہ سے میاں صاحب پر آزمائش نہ آئے ۔انہوں نے کہا کہ ہما را مقابلہ بہت کم ظرف لوگوں سے ہے جنہیں رشتوں کا لحاظ تک نہیںہے اور وہ سیاسی انتقام میںاندھے ہو جاتے ہیں ۔ میں اپنی والدہ کو کھو چکی تھی اور والد کے لئے مشکلات کا باعث نہیں بن سکتی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ڈیل ہوتی تو معاملات اس نہج پر آتے ۔انہوں نے کہا کہ میاں صاحب کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہے لیکن ان کی زندگی کو ابھی بھی خطرات کو لاحق ہیں، ابھی ان کی ہارٹ کی سرجری ہونی ہے ۔انہوںنے کہا کہ حکومت سے کوئی ڈیل تھی ہی نہیں ، میاں صاحب کو باہر بھیجنا ان کی مجبوری بن گئی تھی اس میں کوئی ڈیل کا تعلق ہی نہیں ، جب میاں صاحب کی صحت خراب ہو گئی تھی تو ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے کہ اگر ان کی زندگی کو خطرہ لا حق ہو گیا تو یہ معاملا ت کو سنبھال نہیں سکیں گے، انہوں نے میاں صاحب کو ہمدردی میں باہر نہیں بھیجا ،انہوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے انہیں باہر بھیجا ہے ۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں