منتخب جمہوری وزیراعظم ہوں، کسی میں جرات نہیں کہ مجھ سے استعفیٰ مانگے، وزیراعظم مجھ سے پوچھے بغیر کوئی آرمی چیف کارگل پر حملہ کرتا تو اسے فارغ کردیتا ،وزیراعظم عمران خان کے نجی ٹی وی کے انٹرویو کی تفصیل پڑھیئے

اسلام آباد(آئی این پی ) وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ وہ منتخب جمہوری وزیراعظم ہیں کسی میں جرات نہیں کہ وہ مجھ سے استعفیٰ مانگے، ایک جمہوری وزیراعظم سے کوئی استعفیٰ نہیں مانگ سکتا ،مجھ سے پوچھے بغیر کوئی آرمی چیف کارگل پر حملہ کرتا تو اسے فارغ کردیتا ، ، فوج میری پالیسی کے ساتھ کھڑی

ہے ،نوازشریف امیر المومنین بننا اور تمام اداروں پر کنٹرول کرنا چاہتے تھے، نوازشریف کبھی بھی جمہوری نہ تھے کیونکہ ان کو فوج نے پالا، اگر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام نے نوازشریف سے استعفیٰ مانگا تو پھر بطور وزیراعظم اس نے اسے برطرف کیو ں نہیں کیا،نوازشریف سپر ڈیموکریٹ بن گیاہے ، اس کوجنرل آصف ، مشرف ، راحیل اور قمرجاوید باجوہ تک سب سے مسئلہ رہا ،،حکومت کے لیے جس ادارے کی ضرورت پڑے گی اسے استعمال کروں گا، ہندوستان گلگت بلتستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے کیونکہ یہ سی پیک کا روٹ ہے ، یہ پاکستان کے خلاف خطرناک گیم کھیل رہے ہیں، اگر عاصم باجوہ کے خلاف کوئی اور چیز آگئی تو ضرور تحقیقات کریں گے ، ضرورت پڑی تو معاملہ ایف آئی اے کو دے دیں گے،سعودی عرب سے ہمارے تعلقات خراب ہو ہی نہیں سکتے ، میں وہاں جانے کا سوچ رہا تھا لیکن کورونا آگیا، نوازشریف کی پاکستان واپس لانے کیلئے برطانوی حکومت سے درخواست کرینگے ۔جمعرات کو نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ سے مسئلہ رہے ہیں ، اس کی ایک تاریخ ہے ،ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ایک آرمی چیف نے برا فیصلہ کیا تو کیا تمام فوج بری ہے ، کیا ایک سیاستدان نے سیاست کر کے پیسہ ملک سے باہر لیکر گیا تو کیا سب سیاستدان

برے ہیں ، ایک جج نے برا فیصلہ کیا تو کیا ساری عدلیہ بری ہے ۔انہوں نے کہا کہ فوج کا کام حکومت چلانا نہیں ،حکومت اور فوج کے درمیان بہترین تعلقات ہیں،فوج بدل گئی ہے، جمہوریت اگر نقصان دہ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں جمہوریت کی جگہ مارشل لاء آجائے ، موجودہ سول ملٹری تعلقات پاکستان کی تاریخ کے سب سے بہتر تعلقات ہیں ، پاک فوج جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑی ہے ، ہم آہنگی اس لئے ہے کہ اپنے دائر میں کام کر رہے ہیں ۔وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو جمہوریت پسند نہیں ،اپوزیشن جماعتیں مال بنانے کیلئے اقتدار چاہتی ہیں ،نوازشریف امیر المومنین بننا چاہتے تھے ،نوازشریف تمام اداروں پر کنٹرول کرنا چاہتے تھے،کون کتنی کرپشن کر رہا ہے سب پتہ چل جاتا ہے ، ادارے کنٹرول میں ہوں تو ان کیلئے سب اچھا ہے ، منتخب وزیراعظم ہوں کس کی جرات مجھ سے استعفیٰ مانگے ،مجھ سے پوچھے بغیر کوئی آرمی چیف کارگل پر حملہ کرتے تو انہیں فارغ کردیتا ۔انہوں نے کہا کہ میرا شروع سے مؤقف ہے افغانستان کے مسئلے کا حل طاقت نہیں ،ہمیں کبھی امریکہ کی جنگ میں نہیں پڑنا چاہیے ، میری ہمیشہ واضح پالیسی رہی ہے ، فوج میری پالیسی کے ساتھ کھڑی ہے ، میری پالیسی تھی کہ بھارت سے اچھے تعلقات کرنے ہیں اس پر فوج ساتھ کھڑی ہے ، پلوامہ واقعے کے بعد بالاکوٹ میں جب بھارتی پائلٹ پکڑا گیا تو میں نے کہا واپس کرنا ہے تو فوج

ساتھ تھی ، کرتارپور بھی فوج کرتارپور میں بھی فوج میرے ساتھ تھی ۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کا مسئلہ ہے کہ نوازشریف کبھی بھی جمہوری تھے کیونکہ ان کو فوج نے پالا ،یہ سب میرے سامنے ہے ، یہ لوگ پھولوں کے ٹوکرے ڈی سیز کو رشوت دیتے تھے ،اب یہ بن گیا ہے سپر ڈیموکریٹ۔انہوں نے کہا کہ اس کا مسئلہ پہلے صدر غلام اسحاق پھر جنرل آصف کے ساتھ ہوا پھر مشرف کو آگے لائے ان سے بھی ان کو مسئلہ بنا، جنرل راحیل شریف سے بھی ان کو مسئلہ رہا، جنرل قمر جاوید باجوہ کو یہ لائے پھر ان کے ساتھ ان کا مسئلہ آگیا، سوال یہ ہے کہ ان کے ساتھ یہ مسئلے آتے کیوں ہیں مجھے کیوں نہیں آتا،کیونکہ یہ لوگ چوری کیلئے آتے ہیں ، ہماری ایجنسیز آئی ایس آئی اور ایم آئی دنیا کی نمبر ون ایجنسیز ہیں ، ان کو یہ سب پتہ چل جاتا ہے ، سول ادارے یہ کنٹرول کر لیتے ہیں ،عدلیہ کو بھی یہ کنٹرول کرتے ہیں ، جسٹس سجاد علی شاہ ہمارے سامنے ہیں ، جب یہ عدلیہ کو کنٹرول نہیں کرسکے تو انہیں عدلیہ پر ڈنڈوں سے حملہ کیا، باقی عدلیہ کو بریف کیس دیے ،ایسے ہوسکتا ہے کہ عدلیہ آپ کے ساتھ مل جائے ؟۔انہوں نے کہا کہ فوج ان کے کنٹرول میں نہیں تھی اور یہ فوج کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے ، جب کنٹرول نہیں ہوتی تھی تو یہ جمہوری بن جاتے ہیں ، اب دیکھ لیں ہر وقت فوج کو برا بھلا کہتے ہیں وجہ بتائیں ۔انہوں نے نوازشریف کے خطاب کا حوالہ دیتے

ہوئے کہا کہ مجھے ظہیر الاسلام نے کہا کہ استعفیٰ دو ،آپ وزیراعظم ہیں ، اس میں اتنی جرات ہے کہنے کی یہ ،آپ سیدھا ان کو ٹیک آن کرو۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس احتجاج کرنے کا حق ہے، قانون توڑا تو ایک ایک کرکے جیلوں میں ڈال دیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کے لیے جس ادارے کی ضرورت پڑے گی اسے استعمال کروں گا، گلگت بلتستان سے متعلق ملاقات کا مقصد تھا، جنرل باجوہ نے گلگت بلتستان سے متعلق ملاقات مجھ سے پوچھ کر کی تھی ۔انہوں نے کہا کہ ایک مجرم ملک سے باہر بیٹھ کر سازش کررہا ہے ہم اسے واپس بلوائیں گے۔اس سوال پر کہ اگر آپ کو کال آئے تو آپ کیا کریں گے تو اس کے جواب میں پر وزیراعظم عمران خان نے جواب دیا کہ اگر مجھے کال آئے تو میں اس کا استعفیٰ لوں گا،میں وزیراعظم ہوں ،ان میں اتنی جرات نہیں ۔انہوں نے کہا کہ جب جنرل پرویز مشرف سری لنکا گئے تو پیچھے سے جنرل ضیاء الدین کو بلا کر کہا کہ میں تجھے آرمی چیف بناتا ہوں اور بعد میں یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ انہوں نے کارگل پر حملہ کرنا ہے ، اگر مجھ سے پوچھے بغیر آرمی چیف کارگل پر حملہ کرتا تو میں انہیں بلا کر برطرف کرتا ، میں اتنا بزدل نہیں کہ ایک آرمی چیف باہر گیا اور اس کو ہٹا کر دوسرے کو لگا دیتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کرنے نہیں مال بنانے آتے ہیں ،انسان کی سب سے بڑی اخلاقی

طاقت ہے ، جمہوریت اخلاقی طاقت سے چلتی ہے ،یہ لوگ سارے اداروں کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں ،ان کا مسئلہ ہے کہ ان سے کوئی پوچھے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا تو کہتے ہیں مجھے کوئی نہ پوچھے ، جمہوریت میں لیڈر شپ جواب دہ ہے اور یہ جواب ہی نہیں دینا چاہتے ۔انہوں نے کہا کہ فوج ریاست کا ادارہ ہے ، میں وزیراعظم ہوں ، میرا کام ہے ملک چلانا ،مجھے جہاں ضرورت پڑے گی میں وہیں اسے استعمال کروں گا ،سیکیورٹی میں فوج کا بڑا حصہ ہے ، جہاں سیکیورٹی ایشوز ہوں وہاں فوج سے رائے لی جاتی ہے ، بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو سپانسر کرتا ہے ، اس لئے آپ کو فوج کی رائے لینی پڑے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت کا فیصلہ تھا کہ ہم نے امن لانا ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت کا فیصلہ تھا کہ ہم نے امن لانا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں ملک کا واحد لیڈر ہوں جو پانچ جگہ سے الیکشن جیتا، میں نوازشریف یا ذوالفقار علی بھٹوکی طرح فوج کی نرسری میں نہیں پلا ،میں 22سال جدوجہد کر کے یہاں پہنچا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ مجھے فوج سے کوئی مسئلہ نہیں ،کورونا وائرس میں فوج نے پوری سپورٹ کی ، آج اسی وجہ سے پوری دنیا ہماری مدد کر رہی ہے،انہوں نے پاکستان کے سارے ادارے تباہ کر دیے ہیں ، صرف ایک فوج کا ادارہ بچا ہوا ہے ۔انہوں نے گلگت بلتستان اجلاس کے حوالے سے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مجھ سے

پوچھ کر اجلاس رکھا ، ہندوستان گلگت بلتستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے کیونکہ یہ سی پیک کا روٹ ہے ، گلگت بلتستان کے لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے حقوق ہوں اس کا استعمال ہندوستان کر رہا تھا، یہ پاکستان کے خلاف خطرناک گیم کھیل رہے ہیں ،الطاف حسین نے کہا کہ ہندوستان اس کی پوری مدد کررہا ہے ، ہمارے دشمنوں کا انٹرسٹ ہے کہ پاکستان کی فوج کمزور ہو،کون لندن میں انڈین لابی میں بیٹھ کر جمہوری بن رہا ہے وہ حسین حقانی ہے جو وہاں بیٹھ کر پوری مہم چلاتا ہے اور یہ کہ نادان لبرل بھی کہتے ہیں کہ ہم فوج کے خلاف ہیں ۔انہوں نے کہا کہ خدا کا نام لو آنکھیں کھولو،لیبیا، سربیا، عراق اور افغانستان میں کیا ہوا،اگر آج ہماری فوج نہ اٹھتی تو اس ملک کے تین ٹکڑے ہوچکے ہوتے ،آج ہم فوج کی وجہ سے بچے ہیں ، یہ اسی فوج کو کمزور کرنے کی مہم چلا رہے ہیں ، آرمی چیف نے اجلاس میں سیکیورٹی مسائل سامنے لائے ، اجلاس میں ہونا زیادہ ضروری تھا،جہاں سیکیورٹی ایشوز ہوتے ہیں میں چاہتا ہوں وہاں فوج وضاحت کرے ،فوج کے پاس انسٹی ٹیو شنل میموری ہے ، سول اداروں کے ساتھ ایسا نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیں ،ہندوستان کسی نہ کسی طرح پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے ، یہ تو پاکستان میں شیعہ سنی انتشار پھیلانا چاہتے تھے ۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہندوستان میں پہلے کبھی اتنی پاکستان مخالف

حکومت نہیں آئی ،ہم نے شروع میں ان سے دوستی کی کوشش کی ،یہ نظریاتی طور پر پاکستان کے وجود کے خلاف ہیں اس لئے ہمیں ان سے بہت بڑا خطرہ ہے ،ہماری فوج نشانہ بنایا جا رہا ہے ، نوازشریف بہت بڑا فتنہ پیدا کر رہا ہے ، اتنی بے شرمی سے جھوٹ بول کر باہر گیا، لندن میں ہندوستان کی گیم کھیل رہا ہے ، پاکستان پر اٹیک کر رہا ہے ، اس کا صرف ون پوائنٹ ایجنڈا ہے ،اپنا پیسہ بچانا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ بڑھکیں مارتے ہیں مجھے کسی کا کوئی پریشر نہیں ، میں کسی کی پرچی پر نہیں آیا، ایک پراسس سے گزر کر آیا ہوں ، انہوں نے جو مرضی کرنا ہے کریں مجھے ان کی کوئی فکر نہیں ہے ،آپ لندن میں بیٹھ کر کہتے ہیں چوری بچانے کیلئے عوام سڑکوں پر نکلے ،عوام ایسے نہیں نکلتی،یہ عوام نکال ہی نہیں سکتے ،یہ چاہتے ہیں حکومت پر دبائو پڑے این آر او ملے جیسے مشرف نے کیا پھر مجھ میں مشرف میں کیا فرق ہے ، میں نے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ یہ لوگ صرف اپنا پیسہ بچانے کیلئے اکٹھے ہوں گے ، مجھ پر دبائو ڈالیں گے ،انہیں پتہ ہے میں مانتا نہیں ،یہ پاکستان کی عدلیہ اور فوج پر دبائو ڈالتے ہیں ،عدلیہ اور فوج جواب نہیں دیتے ،اب یہ جو مرضی آئے کہتے رہیں یہ ان پر پریشر ڈالیں گے ،اگر ہم اس وقت ان کا پریشر برداشت کر گئے تو ہم وہ ملک بنیں گے جو بنانا تھا، یہ سب سے تیزی سے اوپر جائے گا ، اگر ہم سے کمپرومائز کر گئے تو

مورل کلائپس ہو جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے دس سالوں میں جو پاکستان کے ساتھ کیا وہ دشمن بھی نہیں کرسکتا،انہوں نے جو پراجیکٹ بنائے آمدنی دینے کی بجائے مزید قرضے کا باعث بن رہے ہیں ،اور ایسی دولت بڑھانے کیلئے ملک کو مقروض کر دیا اور اب ہم سے جواب مانگ رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر عاصم باجوہ کے خلاف کوئی اور چیز آگئی تو ضرور تحقیقات کریں گے ، ضرورت پڑی تو معاملہ ایف آئی اے کو دے دیں گے ،میں سیاست میں ایک مشن کے تحت ہوں ، یہ لوگ جب اقتدار میں آئے ان کی دولت بڑھی جبکہ میرے اثاثے کم ہوئے ، نوازشریف جواب دیں ایون فیلڈ فلیٹ کہاں سے آئے ،صرف رمضان شوگر مل ملازمین کے اکائونٹس میں 900کروڑ آئے ، عدلیہ نے مجھ سے جواب مانگا میں نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ ادارے برے ہیں ، یہ لوگ سب کچھ کر رہے ہیں سوائے جواب دینے کے ، یہ چاہتے ہیں عمران خان چلا جائے ان کا پیسہ بچ جائے گا ، باقیوں سے یہ ڈیل کر لیں گے ان کا حق ہے احتجاج کریں ، جس وقت اس نے قانون توڑا میں ایک ایک کو جیلوں میں ڈالوں گا ،میں ان کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دوں گا ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کہتی ہے کہ عمران خان سلیکٹڈ وزیراعظم ہے ،2018میں نے کہا کہ چار حلقے کھولو ،چاروں کھلے ، چاروں میں دھاندلی تھی ، میں نے کبھی نہیں کہا کہ امپائر کی انگلی کا مطلب فوج ہے

بلکہ اس کا مطلب اللہ ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن استعفیٰ دے گی تو بڑا اچھا کرے گی ہم پھر سے الیکشن کرائیں گے ، اگر یہ الیکشن کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ کریں ، اگر ہم آج ان کی بلیک میلنگ میں آئے توآنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔انہوں نے کہا کہ جب آپ کی لیڈر شپ کا پیسہ باہر ہوگا تو وہ کبھی آزادانہ لیڈر نہیں بن سکتے ، ان کے اثاثے باہر ہیں ، مجھے اس لئے فکر ہے کہ میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ سینیٹ الیکشن سے پہلے بیھ کچھ نہیں کرسکے جب اپوزیشن کو یہ فکر ہو کہ ہم نے اپنا پیسہ بچانا ہے تو پھر جمہوریت نہیں چلتی ، پاکستان میں قانون سازی بہت مشکل ہوگئی ہے ،انہوں نے کہا کہ ہم نے عدلیہ میں کوئی مداخلت نہیں کی ،سابق چیئرمین نیب ان کے کیس بند کر رہا تھا ،یہ اسے کنٹرول کر رہے تھے ، ان لوگوں نے اداروں کو چلنے ہی نہیں دیا ،انہوں نے سارے اداروں پر بیٹھنے کیلئے انہوں نے امیر المومنین بننے کی کوشش کی ، ہمارے طرف سے نہ عدلیہ اور نہ ہی نیب کا کوئی پریشر ہے ، میڈیا آزاد ہے ، میڈیا نے دو سال میں ہم پر جو تنقید کی وہ کسی حکومت پر نہیں کی ۔انہوں نے کہا کہ مطیع اللہ جان کی گرفتاری پر ہماری حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ، میری حکومت ایسا کر ہی نہیں سکتی ۔انہوں نے کہا کہ بچوں اور خواتین سے زیادتی کرنے والوں کے خلاف سخت قانون لا رہے ہیں ، بچوں اور

خواتین سے زیادتی کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں گے ۔وزیراعظم نے کہا کہ ارطغرل ڈرامہ ترک صدر سے کہہ کر پاکستان لیکر آیا کہ ہم نے معاشرے کو بدلنا ہے ماڈر نائزیشن ہمارے معاشرے کیلئے ٹھیک نہیں ۔وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب سے ہمارے تعلقات ٹھیک ہیں ،سعودی عرب سے ہمارے تعلقات خراب ہو ہی نہیں سکتے ، میں سعودی عرب جانے کا سوچ رہا ہوں لیکن کورونا آگیا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پلان بنا لیا ہے کہ ہم نوازشریف کی واپس لانے کیلئے برطانوی حکومت کو کہیں گے ،یہ یہاں جھوٹ بول کر گئے اور وہاں سیاست کر رہے ہیں ۔ ۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں