اسلام آباد (پی این آئی) مسلم لیگ ن نے ہر قسم کی مزاحمت کے لیے تیاری کرلی،حکومت مخالف تحریک کو جمہوریت کی جنگ کہتے ہوئے دراصل فوج کے ساتھ لڑائی لڑنا چاہ رہے ہیں ، ان کی جماعت کی اکثریت اس بیانیہ کی مخالف ہے اور انہوں نے اپنا سیاسی مستقبل بھی تلاش کرنا شروع کردیا ، جبکہ ریاست اور ادارے
بھی اسی طرح سے متحرک ہوچکے ہیں، ان خیالات کا اظہار صحافی و تجزیہ کارنے کیا ۔نوازشریف اور مریم نواز نے جو اتنا جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے ، اس حوالے سے سابق وزیراعظم سے متعلق ہمارے اداروں کے پاس یہ اطلاعات ہیں کہ چار ممالک کے سفارتخانے متحرک ہیں جن میں دو مغربی اور اسلامی ممالک شامل ہیں، لندن میں بھی ان کی اہم سفارتکاروں اور بڑے ممالک کے حکام سے ملاقاتیں ہوئی ہیں، جن میں چند خفیہ ملاقاتیں بھی شامل ہیں، سابق وزیراعظم پاکستانی سیاست میں ایک سنیئر ترین فریق ہیں وہ اچھی طرح سے چیزوں کو جانتے ہیں، ان کا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی رابطہ ہے،اس سلسلے میں ان کے امریکا، برطانیہ، عرب امارات، قطر اور دیگر طاقتور ممالک کے ساتھ اچھے روابط ہیں۔صحافی نے کہا کہ نوازشریف تمام معاملات طے کرنے کے بعد لندن گئے جہاں انہوں نے ایک سال تک مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی، لیکن اب اچانک ہی ان کی طرف سے اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسایا جارہا ہے، مسلم لیگ ن میں موجود رہنماؤں کی اکثریت اس کی مخالف ہے، جن کی طرف سے اس بیانیے کی بھی مخالفت کی گئی ہے،جب نوازشریف کے حکم پر ان کی جماعت کی طرف سے عسکری قیادت سے ملاقاتوں پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا، عین اسی وقت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اراکین افواج پاکستان کی دعوت پر میران شاہ گئے ہوئے تھے، جن میں ن لیگ کے رہنما بھی شامل تھے۔صابر شاکر نے مزید کہا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کو تب تک واپس نہیں لایا جاسکتا، جب تک برطانوی حکومت خود انہیں جانے کا نہ کہہ دے، جبکہ خود سے وہ واپس نہیں آئیں گے، چیزیں ایم کیو ایم کی طرح سے ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، جس کی وجہ سے سیاست میں کشیدگی بڑھ جائے گی، اس ساری صورتحال میں فیصلہ کن کردار پیپلزپارٹی ادا کرے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں