لاہو ر(پی این آئی) قومی احتساب بیورو (نیب) نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیخلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ایک نجی ہوٹل کو شراب کا لائسنس دینے کیخلاف انکوائری کے علاوہ، بیورو کا لاہور آفس وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف ان انکوائریز کی تصدیق کے مرحلے سے بھی گزر رہا ہے جن کے مطابق انہوں نے
منتخب افراد کو سرکاری ٹھیکے مہنگے نرخوں میں دیے ہیں۔تاہم، اب تک نیب کے پاس عثمان بزدار کیخلاف کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب کے قریبی رشتہ داروں اور ساتھیوں (جو ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں) کیخلاف بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ نجی ٹی وی کے ذرائع کے مطابق نیب کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ ہم اب تک وزیراعلیٰ پنجاب کو گرفتار کرنے کے مرحلے تک نہیں پہنچے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیراعلیٰ کے دعوے کے برعکس، نیب کو ان کے اثاثوں کی تفصیلات موصول نہیں ہوئیں جو وزیراعلیٰ سے اثاثوں کے خصوصی فارم پر طلب کی گئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ نیب نے کچھ ایسے بیوروکریٹس سے بھی اثاثوں کی تفصیلات مانگی ہیں جو وزیراعلیٰ پنجاب سے وابستہ ہیں۔شراب کے لائسنس کیس میں نیب کو موصول ہونے والی شکایت میں بتایا گیا ہے کہ لائسنس کیلئے 7 کروڑ روپے رشوت دی گئی تھی۔ نیب افسر نے کہا کہ لائسنس 6 ماہ کیلئے دیا گیا تھا لیکن اس کی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل ہی اسے منسوخ کر دیا گیا تاکہ لائسنس حاصل کرنے والے کو عدالت سے حکم امتناع کے حصول میں مدد مل سکے۔نیب افسر نے دعویٰ کیا کہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لائسنس کا عرصہ ختم نہیں ہوگا۔ نیب ذرائع اعتراف کرتے ہیں کہ باضابطہ طور پر وزیراعلیٰ کیخلاف کچھ نہیں ملا لیکن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل اکرم اشرف گوندل، جو نیب کے وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں، بہت ہی واضح ہیں۔ایک مقامی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق لاہور کے ایک نجی ہوٹل کو جاری کیے جانے والے شراب کے لائسنس کیس میں تحریری طور پر کچھ موجود نہیں جس سے وزیراعلیٰ کے ملوث ہونے کا پتہ چل سکے۔جس کیلئے نیب ان سے تفتیش کر رہا ہے۔ سرکاری دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئےے کہا گیا تھا کہ فائلوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب ڈائریکٹر جنرل اکرم اشرف گوندل، جو وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔وزیراعلیٰ کو ان کے پرنسپل سیکریٹری اور پنجاب کے چیف سیکریٹری کے ذریعے ملوث کر رہے تھے اور وزیراعلیٰ کے پاس منظوری اور معلومات کیلئے سمریاں بھیج رہے تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دستاویزات سے اگرچہ یہ واضح ہے کہ وزیراعلیٰ خود کو سمریوں سے دور رکھے ہوئے تھے اور کوئی بات تحریری طور پر نہیں لا رہے تھے، لیکن وعدہ معاف گواہ نے نیب کو بتایا ہے کہ بزدار کے دفتر میں انہیں پانچ چھ مرتبہ طلب کیا گیا
تھا اور لائسنس جاری کرنے کو کہا گیا تھا۔چینل ذرائع کے مطابق وائٹ کالر کرائم میں سرکاری فائلوں میں بمشکل ہی کوئی ثبوت چھوڑا جاتا ہے۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بیورو کو وزیراعلیٰ کیخلاف کئی دیگر شکایات بھی ملی ہیں جن میں سے بیشتر سرکاری ٹھیکوں میں کرپشن کے متعلق ہیں۔یہ شکایات اب تک تصدیق کے مرحلے سے گزر رہی ہیں اور مختلف حکام سے نیب نے معلومات کے حصول کیلئے رابطہ کیا ہے۔ اسی دوران ایک موقر ذریعے نے بتایا ہے کہ جن لوگوں کو شراب لائسنس کیس میں طلب کیا گیا ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ آیا عثمان بزدار اور ان کے منصب سے جڑا کوئی اور معاملہ بھی ہے۔ذریعے نے کہا کہ کچھ معاملات میں شک ہے جبکہ کچھ میں دال واقعی کالی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیب کو کچھ ایسے معاملات ملے ہیں جو واقعی ”کالے“ ہیں۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تمام الزامات بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب اپنے کام کاج میں انتہائی شفافیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کوئی بھی سمری پڑھے اور اس کے میرٹ کا جائزہ لیے بغیر منظور نہیں کرتے۔یہ تمام الزامات لغو اور بے بنیاد ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کی مقبولیت سے خائف لوگ ان کیخلاف ایسے اقدامات کرتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف انکوائری اور تحقیقات میں کچھ ثابت نہیں ہوگا اور وہ سرخرو ہوں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں