واشنگٹن (پی این آئی) امریکہ میں مسلسل دوسرے روز کرونا وائرس کے ریکارڈ کیسز سامنے آئے ہیں جس کے بعد متعدد ریاستوں کے گورنرز نے معمولاتِ زندگی بحال کرنے کا فیصلہ منسوخ کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکہ میں گزشتہ روز 55 ہزار 274 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
عالمی وبا کے آغاز سے اب تک امریکہ یا دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک روز کے دوران رپورٹ ہونے والے کیسز کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔امریکہ میں اس وبا کا شکار ہونے والے تقریبا ایک لاکھ 29 ہزار شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور 27 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ۔عالمی سطح پر ایک روز کے دوران اب تک برازیل میں 19 جون کو 54 ہزار 771 ریکارڈ کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔تاہم اب جمعرات کو امریکہ میں یومیہ کیسز کا ریکارڈ بنا ہے۔امریکہ کی 50 میں سے 37 ریاستوں میں کرونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ریاست فلوریڈا، کیلی فورنیا، ٹیکساس اور ایریزونا وائرس کا نیا مرکز بن رہی ہیں۔امریکہ میں وبائی امراض کے ماہر اور کرونا وائرس ٹاسک فورس کے رکن ڈاکٹر انتھونی فاوچی نے خبردار کیا ہے کہ ہم وبائی حالت میں ہیں جس کے نتائج مزید بھیانک ہو سکتے ہیں۔امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن نیٹ ورک سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ 102 برسوں میں ایسی صورتِ حال کا سامنا نہیں کیا جیسا کہ اب کرنا پڑ رہا ہے۔موجودہ حالات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے تمام شہریوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ فلوریڈا میں 10 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو اب تک ریاست میں رپورٹ ہونے والے یومیہ کیسز کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ریاست کیلی فورنیا میں مثبت کیسز کی شرح میں 37 فی صد اور اسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں 56 فی صد اضافہ ہوا ہے۔نئے پازیٹو کیسز میں اچانک اضافے کے بعد کیلی فورنیا نے ریستورانوں اور کلبوں پر دوبارہ پابندی لگا دی ہے۔ریاست ٹیکساس میں بھی لگ بھگ آٹھ ہزار افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ گورنر گریگ ایبٹ نے شہریوں کو ماسک پہننے کی سختی سے تاکید کی ہے۔انہوں نے جاری کردہ اپنے ایک حکم نامے میں کہا ہے کہ جن کاونٹیز میں 20 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں وہاں ہر شخص پر ماسک پہننا لازم ہے۔امریکہ میں کرونا وائرس کی نئی لہر کو دیکھتے ہوئے متعدد ریاستوں کے گورنرز نے ایک ماہ کے سخت لاک ڈاون کے بعد نئے کیسز میں اضافے کے بعد ریاستوں کو کھولنے کے فیصلے پر نظر ثانی پر غور شروع کر دیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں