سورج گرہن اور اس سے جڑی توہمات۔۔سورج گرہن کب اور کیسے لگتا ہے؟اور کیا کیا احتیاط کرنی چاہئیں؟تفصیلی رپورٹ جاری

اسلام آباد(پی این آئی)آج کل سوشل میڈیا پر ایک طرف جہاں کورونا وائرس آگاہی مہم کے ذریعے جنگ لڑی جارہی ہے، وہیں رنگ میں بھنگ ڈالنے والے بھی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کےلیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ان لوگوں کو عوام میں سنسنی پھیلانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں اور اسی وجہ سے جیسے ہی 21

جون 2020 کے سورج گرہن کی تاریخ نزدیک آئی تو انہوں نے مشہور کردیا کہ دسمبر 2012 میں مایا کیلنڈر کے اختتام پر جو دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی تھی وہ دراصل 21 جون 2020 کو ثابت ہوجائے گی۔ سائنس کی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں ایسا خوف پھیلا ہوا ہے جیسے انہیں خود پر یقین ہی نہ ہو۔21 جون 2020 یعنی کل بروز اتوار پاکستان میں حلقہ نما سورج گرہن لگنے جارہا ہے جو کہ کسی اچھنبے کی بات نہیں۔ کیونکہ گرہن کا سلسلہ تو اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب چاند وجود میں آیا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ چاند زمین کے اور زمین سورج کے گرد گردش کررہی ہے اور چاند زمین کے گرد اپنے مدار میں اسی مقام پر تقریباً 29 دنوں میں واپس آجاتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ چاند ہر ماہ سورج اور زمین کے درمیان سے گزرتا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر سال میں 12 یا 13 سورج اور چاند گرہن ہونے چاہئیں، کیونکہ چاند زمین کے گرد ایک سال میں 12 یا 13 چکر لگاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔اس سوال کا جواب چاند کے مداری جھکاؤ (جسے فلکیاتی اصطلاح میں ’’اربیٹل اِنکلینیشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے) میں ہے۔ قمری مدار زمین کے مدار کی سیدھ میں نہیں بلکہ تقریباً 5 ڈگری جھکا ہوا ہے، جس کی وجہ سے چاند کا مدار زمینی مدار کو صرف ’دو‘ مقامات پر ہی کاٹتا ہے، جنہیں فلکیاتی اصطلاح میں ’’نوڈز‘‘ یعنی ’’مقام انقطع‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر چاند اپنی ابتدائی منازل میں یا مکمل چاند کی حالت میں ہونے کے ساتھ ان مقامات پر یا ان کے قریب ہوگا تو اس وقت سورج، چاند اور زمین کے ایک سیدھ میں ہونے کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ سورج گرہن یا چاند گرہن وقوع پذیر ہو۔ لیکن ذرا ٹھہریے، کیونکہ یہ مدار اتنا سادہ نہیں۔کائنات میں ہر چیز منظم تو ضرور ہے لیکن اگر اس کائنات کو باریکی سے دیکھا جائے تو ہر طرف بےترتیبی دیکھنے کو ملے گی، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کائنات میں کسی بھی سیارے، ستارے یا چاند کا مدار مکمل دائرہ نہیں ہوتا بلکہ بیضوی شکل (یعنی انڈے کی شکل) کا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر دوربین سے چاند کا مشاہدہ کیا جائے تو اپنے ہمیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ چاند اپنے چکر میں زمین سے دور یا قریب ہوتا رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جب سورج یا چاند گرہن ہو تو چاند زمین سے ٹھیک 3 لاکھ 80 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہو, بلکہ چاند اگر گرہن کے وقت زمین سے دور ہوگا تو سورج کو مکمل ڈھانپ نہیں پائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیں سورج گرہن کی مختلف اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں۔مکمل سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند زمین اور سورج کے درمیان میں آجائے، لیکن کچھ اس طرح کہ چاند کا زمین سے فاصلہ اتنا ہو کہ وہ سورج کو مکمل طور پر ڈھانپ لے۔ مکمل سورج گرہن میں چاند سورج کا ’روشن کرّہ‘ یعنی فوٹو سفئیر ڈھانپ لیتا ہے لیکن سورج کی فضا جسے ’’کورونا‘‘ کہا جاتا ہے، نظر آنے لگتی ہے جو کہ ایک دلکش منظر ہوتا ہے، کیونکہ روشن کرّے کی موجودگی میں کورونا کو دیکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ کورونا ہی وہ جگہ ہے جہاں سورج کے دھماکے ہوتے ہیں اور پلازما سورج کے اطراف میں پھیل جاتا ہے۔ مکمل سورج گرہن میں سورج کو چاند کے مکمل ڈھانپنے کو ہی مثال بنا کر شمسی سائنسدان بھی جب تحقیق کےلیے سورج کی تصویر لیتے ہیں تو سورج کے روشن کرّے کو اسی طرح ڈھانپ کر اس کی فضا کی جانچ کرتے ہیں۔حلقہ نما سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان میں تو آجائے لیکن اپنے مدار کے اس مقام پر چاند کا زمین سے فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے زمینی باشندوں کےلیے چاند مکمل طور پر سورج کے روشن کرّے کو ڈھانپ نہ پائے۔ اس کے نتیجے میں سورج کا درمیانی حصہ چھپ جاتا ہے، جبکہ اطراف میں روشن حلقہ بن جاتا ہے۔ اس حالت کو عوام الناس میں ’رنگ آف فائر‘ یعنی آگ کے چھلے کے طور پر بھی

جانا جاتا ہے۔ حالانکہ آج ہمیں معلوم ہے کہ سورج پر آگ موجود ہی نہیں۔جزوی سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب پورا چاند زمین اور سورج کے مدار کی سیدھ میں نہ ہو۔ اس وجہ سے جب چاند سورج کے سامنے سے گزرتا ہے تو چاند کا کچھ حصہ ہی سورج کو ڈھانپتا ہے۔21 جون 2020 کو ہونے والا سورج گرہن حلقہ نما سورج گرہن ہوگا۔ کیونکہ چاند کا زمین سے اس وقت فاصلہ تقریباً 3 لاکھ 90 ہزار کلومیٹر ہے. جس کا مطلب یہ ہے کہ چاند کا کونی قطر آسمان میں سورج کے کونی قطر (اینگولر ڈایامیٹر) سے کم ہوگا۔ اس گرہن کا پاکستان میں مقیم فلکیاتی شیدائیوں کو بے حد انتظار ہے۔ کیونکہ 1995 اور 1999 کے مکمل سورج گرہن کے بعد پاکستان میں 2020 میں پہلی دفعہ حلقہ نما سورج گرہن دیکھا جائے گا اور سورج گرہن قدرت کے بہترین مناظر میں سے ایک ہے۔اس بار کا حلقہ نما سورج گرہن پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 21 جون 2020 کی صبح 8 بجکر 45 منٹ پر شروع ہوگا اور 9 بجکر 47 منٹ پر چاند سورج کو ڈھانپنا شروع ہوجائے گا۔ 11 بج کر 40 منٹ پر گرہن کا عروج ہوگا۔ یعنی سورج حلقے کی شکل اختیار کرلے گا اور پھر دوپہر 1 بج کر 32 منٹ تک سورج مکمل طور پر نمودار ہوجائے گا جبکہ گرہن کا اختتام 2 بجکر 34 منٹ پر ہوگا۔تصویرمیں دیکھا جاسکتا ہے کہ سورج گرہن جنوبی چین کے کچھ علاقوں سے ہوتا ہوا بھارتی دارالحکومت دہلی کے قریب دہرادون کے اوپر سے گزرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوگا، جہاں یہ سندھ کے مشہور

شہر سکھر اور لاڑکانہ سے گزرے گا۔ اس کے بعد سیریا کی ریاست سے ہوتا ہوا جنوبی افریقہ میں اس کا اختتام ہوگا۔ اس کے علاوہ تصویر میں جو علاقے ہلکے نارنجی ہیں، ان میں حلقہ نما سورج گرہن مکمل طور پر دکھائی نہیں دے گا بلکہ جزوی سورج گرہن دکھائی دے گا۔سورج گرہن مکمل طور پر قدرتی عمل ہے جو اس وقت ہوتا ہے جب سورج اور زمین کے درمیان چاند آجائے۔ جبکہ چاند پر سال کے کچھ مہینوں میں سورج اور زمین کے درمیان آجانا کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ آج سائنسدانوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ کب کون سا فلکی جسم کہاں ہوگا۔اکثر لوگوں کا، جو سائنسی علم سے مکمل طور پر ناآشنا ہیں، کہنا ہے کہ گرہن کے وقت سورج سے کچھ خاص طرح کی شعاعیں نکلتی ہے جو انسانوں پر اثرانداز ہوکر بہت سے حادثات کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے جدید سائنس کے اس دور میں رہتے ہوئے بھی ان شعاعوں کا نام نہیں بتایا۔حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی شعاعیں موجود نہیں جو انسانوں پر اثرانداز ہوں۔ بلکہ سائنسدان اور آنکھوں کے ماہرین گرہن کو برہنہ آنکھ سے دیکھنے سے اس لیے منع کرتے ہیں کیوں کہ گرہن کے وقت جب چاند سورج کو مکمل ڈھانپ لیتا ہے تو اس وقت سورج کی روشنی مدھم ہوجاتی ہے لیکن جیسے ہی چاند سورج کے سامنے سے ہٹنے لگتا ہے تو سورج کی تیز روشنی آنکھوں میں اچانک پڑنے

سے آنکھوں کا پردہ یعنی ریٹینا جل سکتا ہے، جس سے آپ کی بینائی ہمیشہ کےلیے جاسکتی ہے، وہ بھی بنا تکلیف کے، کیونکہ ریٹینا میں درد محسوس کرنے والے خلیے موجود نہیں ہوتے۔اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا صرف گرہن کے وقت ہی یہ تیز روشنی نکلتی ہے؟ تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سورج کو کبھی بھی برہنہ آنکھ سے نہیں دیکھنا چاہیے اور اگر آپ سورج گرہن کا لطف اٹھانا چاہتے ہیں تو ایکس رے کا پیپر یا عام سن گلاسز استعمال کرنے کے بجائے صرف سرٹیفائیڈ شمسی عینکوں یا 13 اور 14 نمبر ویلڈنگ گلاس کا استعمال کیجئے۔یہ بات بھی اکثر کہی جاتی ہے کہ حاملہ عورت اگر سورج یا چاند گرہن کے وقت لوہے کی کسی بھی تیز چیز، جس میں قینچی، چھری، وغیرہ شامل ہیں، کا استعمال کرے تو ہونے والا بچہ معذور پیدا ہوگا۔ اس بات میں رتی بھر بھی حقیقت نہیں ہے۔ اس چیز کو غلط ثابت کرنے کےلیے کبھی کسی عام انسان نے تجربہ بھی نہیں کیا، کیونکہ ہر کسی کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں۔ لیکن سائنسدانوں نے یہ سب تجربات جانوروں سے لے کر انسانوں تک پر کئے ہوئے ہیں۔ معذور بچے کا پیدا ہونا صرف ایک اتفاق یا کسی اور جینیاتی بیماری کا نتیجہ ہو سکتا ہے جو کہ حاملہ کو ساس یا ماں کی جانب سے شدید گھبراہٹ کا شکار کرنے کے نتیجے میں ’ہارمونز کا توازن‘ خراب ہونے سے ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک فلکیاتی عمل کا انسانی زندگی سے کسی قسم کا کوئی تعلق کبھی نہیں ہوسکتا۔ہمارے پاس دوربین نہیں ہے، شمسی عینک بھی نہیں اور نہ ہی ویلڈنگ گلاس، پھر سورج گرہن کیسے دیکھیں؟پاکستان میں فلکیات کا شوق رکھنے والوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ پاکستان میں فلکیاتی سامان جس میں دوربینیں، شمسی عینکیں وغیرہ شامل ہیں، بہت آسانی

سے نہیں ملتیں، بلکہ انہیں امریکا یا چین سے منگوانا پڑتا ہے۔ جو کہ مہنگی ہونے کے ساتھ ایئرپورٹس پر سیکیورٹی عملے کے ساتھ ہونے والی خواری بھی ساتھ لاتی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں کچھ ہزار لوگوں کے علاوہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس فلکیات کا سامان نہیں لیکن وہ اس کا شوق رکھتے ہیں۔ ان شوق رکھنے والوں کےلیے بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو کرکے وہ خود کو محفوظ رکھتے ہے سورج گرہن باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔اگر گرہن کی تاریخ نزدیک آگئی اور آپ کے پاس شمسی عینکیں نہیں ہیں تو فکرمند ہونے کی کوئی بات نہیں، کیونکہ آپ گھر میں ’سورج گرہن پروجیکٹر‘ بناسکتے ہیں۔ اس کےلیے آپ کو ایک عدد بڑا ڈبہ، ایک عدد چھوٹا ایلومینیم کا کاغذ (آپ کوئی بھی چاکلیٹ کھائیں اور اس کا غلاف ایلومینیم کا کاغذ ہوگا) اور ایک عدد سفید کاغذ۔ڈبہ لمبائی میں زیادہ ہونا چاہیے تاکہ سورج کی تصویر بڑی اور واضح ہو۔ ڈبےکے ایک طرف دو بڑے سوراخ کریں۔ ایک سورج ڈبے کے اندر کی سورج کی تصویر دیکھنے کےلیے ہوگا اور دوسرے سوراخ پر ایلومینیم کا کاغذ لگائیں، جس طرح تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ڈبے کے اندر پچھلی طرف ایک سفید کاغذ لگادیں تاکہ سورج کی تصویر واضح نظر آئے۔ اب ایک عدد سوئی لے کر ان ایلومینیم کے کاغذ میں تقریباً 2 ملی میٹر بڑا سوراخ کریں۔ لیجئے، ہوگیا آپ کا سورج گرہن پروجیکٹر تیار۔ اب ڈبے کو سورج کی طرف کریں اور ڈبے کے اندر دیکھنے والے سوراخ سے جھانکیں۔ آپ کو سفید کاغذ پر سفید دائرہ دکھائی دے گا۔ جی ہاں وہ ہمارا اپنا سورج ہے۔اگر آپ کو کوشش کرنے کے باوجود ایلومینیم کا کاغذ بھی نہیں ملا اور نہ شمسی عینکیں ملیں اور آپ کو یوں محسوس ہورہا ہے جیسے اس گرہن کےلیے انتظار زندگی بھر انتظار ہی بن کر رہ جائے گا (کیونکہ جون کے مہینے میں حلقہ نما سورج گرہن زمین پر اسی مقام پر

300 سال میں ایک دفعہ آتا ہے) تو ایک آخری کوشش کیجئے اور گھر کے باورچی خانے میں تصویر میں دکھائے گئی ’چھلنی‘ ڈھونڈیں اور پہنچ جائیے گرہن دیکھنے۔یوں سمجھئے کہ اس کا ہر سوراخ ایک ’سورج گرہن پروجیکٹر‘ ہے اور ہر سوراخ سفید کاغذ پر سورج بنائے گا اور جب سورج کو گرہن لگے گا تو آپ کو اس چھلنی سے بنی سورج کی تصویروں میں گرہن زدہ سورج نظر آئے گا۔ یوں آپ اپنے گھر کی چیزوں سے سورج گرہن بحفاظت دیکھ سکتے ہیں۔اپنی انگلیاں موجود ہوں گی۔ آپ اپنی انگلیوں کو کراس کرکے ان کے بیچ خلا سے ’سورج گرہن پروجیکٹر‘ بنا سکتے ہیں، جو چھلنی کا کام ہی کریں گی۔آخر میں یہی کہوں گا کہ سورج یا چاند گرہن کے بارے میں خوف و ہراس پھیلانے والوں کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اور اپنے بچوں کو بھی گھر میں سورج گرہن پروجیکٹر یا پھر دوربین (فلٹر کے ساتھ) کے ذریعے سورج اور چاند گرہن دکھائیں۔ کیونکہ جب تک پاکستان میں علم عام نہیں ہوگا، نجومی اور غیر سائنسی لوگ اسی طرح کی باتیں عوام میں پھیلاتے رہیں گے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں