اسلام آباد(پی این آئی)دنیا بھر میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے کئی قسم کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ ان ٹیسٹوں کا طریقہ ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے نتائج کی حساسیت بھی مختلف ہے۔اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وائرس کی تشخیص کے لیے زیادہ تر ’پی سی آر‘ ٹیسٹ ہی کیے جا
رہے ہیں۔تاہم پاکستان کی کچھ نجی لیبارٹریوں نے پی سی آر ٹیسٹ کے علاوہ اینٹی باڈی ٹیسٹ (آئی جی جی اور آئی جی ایم) بھی متعارف کروائے ہیں۔پی سی آر ٹیسٹ کیا ہے؟عام طور پاکستان سمیت دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ’سواب ٹیسٹ‘ یا پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے کورونا کی تشخیص کی جا رہی ہے۔اس ٹیسٹ کو کرنے کے لیے مشتبہ متاثرہ شخص کے منھ یا ناک کے ذریعے نمونہ لیا جاتا ہے۔سواب ٹیسٹ ’پولیمریز چین ری ایکشن‘ یعنی پی سی آر ٹیسٹ کے لیے موزوں ہے۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کی سرکاری لیبارٹریوں کی ترجمان رافعہ حیدر نے بتایا کہ اس ٹیسٹ کے دو اہم حصے ہوتے ہیں۔’سب سے پہلے متعلقہ شخص کے نمونے سے آر این اے (یعنی رائیبو نیوکلک ایسڈ) کو نکالنے کا عمل کیا جاتا ہے اور پھر الگ کیے گئے آر این اے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں آر این اے میں وائرس کی موجودگی کو پرکھا جاتا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ٹیسٹ میں ’ہم وائرس سے مشتبہ متاثرہ فرد کے نمونے کا ایک ’نان کنٹرول‘ کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں جس کا مطلب وائرس کی وہ جینیاتی ترتیب ہے جو کورونا وائرس کی پہچان ہے۔اگر نمونے میں وائرس پائے جانے کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس شخص کے نتائج مثبت دیے جاتے ہیں۔ ٹیسٹ کے نتائج عموماً 24 سے 72 گھنٹوں میں آ جاتے ہیں۔اس ٹیسٹ کو سرکاری لیبارٹریوں میں مفت کیا جاتا ہے جبکہ نجی لیبارٹریوں میں اس ٹیسٹ کے تقریباً آٹھ ہزار روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔اینٹی باڈی ٹیسٹ کیا ہے؟اس ٹیسٹ کو کرنے کے لیے کسی بھی فرد کے خون کا نمونہ لیا جاتا ہے اور یہ جانچا جاتا ہے کہ جسم میں وائرس موجود ہے یا نہیں۔گیٹز فارما کے تحقیقاتی شعبے کی سربراہ وجیہہ جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ جب بھی انسانی جسم میں باہر سے کوئی چیز اندر داخل ہوتی ہے جیسے کوئی وائرس تو انسانی جسم اس کے ردعمل میں اینٹی باڈیز بناتا ہے جو مخصوص وائرس کے خلاف مدافعت فراہم کرتی ہیں۔انھوں نے مزید بتایا کہ یہ ٹیسٹ کورونا کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر بیماریوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ہیپاٹائٹس وغیرہ۔ان کا مزيد کہنا تھا کہ اس ٹیسٹ کو کرنے کے لیے آپ کو نہ تو ہسپتال کی اور نہ ہی لیبارٹری کی ضرورت ہے۔ اس میں صرف آپ کو عملے کی ضرورت ہو گی جسے سکھا دیا جائے کہ یہ ٹیسٹ کیسے ہو گا۔’اس ٹیسٹ کو کرنے کا طریقہ بھی کافی آسان ہے۔ ہم جس طرح ذیابیطس کا ٹیسٹ کرتے ہیں اسی طرح کسی بھی فرد کی انگلی پر ہلکی سے سوئی چبھو کر خون کا نمونہ لے لیتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کا نتیجہ 10 منٹ کے اندر اندر آ جاتا ہے۔‘وجیہہ جاوید کے مطابق اینٹی باڈی ٹیسٹ میں دو طرح کی اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ آیا ماضی میں کوئی شخص وائرس کا شکار ہوا تھا یا نہیں۔ جبکہ اس میں موجود آئی جی ایم یہ بتاتا ہے کہ ابھی انفیکشن کس مرحلے میں ہے۔یہ ٹیسٹ بڑے پیمانے پر سکرینگ کے لیے
بہت فائدہ مند ہے کیونکہ ہم اس سے علامات ظاہر نہ کرنے والے افراد کو الگ کر سکیں گے اور دوسری جانب وہ لوگ جو بغیر علامات ظاہر کیے ٹھیک ہو گئے ہیں ان سے کورونا کے شدید متاثر مریضوں کے علاج کے لیے پلازما لیا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیسٹ کی قیمت پی سی آر ٹیسٹ کی قیمت سے بہت کم ہے۔ اس کی ٹیسٹنگ کٹ 1500 سے 2500 روپے میں دستیاب ہوتی ہے، جبکہ سرکاری سطح پر اس ٹیسٹ کو استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔پی سی آر اور اینٹی باڈی ٹیسٹ میں کیا فرق ہے؟پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی شخص میں وائرس موجود ہے یا نہیں۔جبکہ اینٹی باڈی ٹیسٹ ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن میں علامات ظاہر نہ ہوں یا پھر وہ لوگ جن میں وائرس رہ کر ختم ہو چکا ہو اور وہ صحت مند ہو چکے ہوں۔یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ پی سی آر اُس وقت کیا جاتا ہے جب وائرس کی تشخیص کرنی ہو جبکہ اینٹی باڈی ٹیسٹ کا بنیادی استعمال یہ نہیں ہے۔’یہ ٹیسٹ صرف یہ بتاتا ہے کہ کیا آپ کا جسم وائرس کا شکار ہوا اور اس نے اس وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز بنائی تھیں۔‘ان کا مزيد کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی تشخص اور علاج کے لیے دنیا میں بھر میں مختلف اقسام کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ تاہم ہر مخصوص ٹیسٹ اس وقت ہی کیا جاتا جب اس کی ضرورت پیش آتی ہے جبکہ کچھ ٹیسٹ ایسے بھی ہیں جو بہت مہنگے ہیں۔ اس لیے ان کو ہر کوئی استعمال نہیں کر سکتا۔دوسری جانب وجیہہ جاوید کے مطابق پی سی آر ٹیسٹ ایسے افراد میں وائرس کا پتا نہیں لگا پاتا جن میں ’وائرس لوڈ‘
کم ہو۔ وہاں اینٹی باڈی ٹیسٹ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔اینٹی باڈی ٹیسٹ کسے کروانا چاہیے؟وجیہہ جاوید کا دعویٰ ہے کہ ان کی کمپنی نے پاکستان میں کورونا کے لیے یہ ٹیسٹ سب سے پہلے متعارف کروایا ہے۔ ’ہم نے بطور تحقیق اپنی ہی کمپنی کے ملازمین کے اینٹی باڈی ٹیسٹ کیے۔ ٹیسٹ کرنے کے بعد جن لوگوں میں کورونا کی تصدیق ہوئی، ان میں سے 90 فیصد لوگوں میں کسی قسم کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔‘’اس سے ہم نے مثبت نتائج والے ملازمین کو قرطینہ بھیج دیا۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن میں وائرس آنے کے بعد ختم بھی ہو چکا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں حکومت کی جانب سے بار بار بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بیشتر لوگ کورونا وائرس ہونے کے باوجود بھی کوئی علامات ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔’اس لیے میرا خیال ہے کہ سمارٹ لاک ڈاون کے لیے ہمیں اس ٹیسٹ کو اپناتے ہوئے ٹیسٹنگ کرنی چاہیے تاکہ جن لوگوں میں کورونا وائرس موجود ہے اور وائرل لوڈ کم ہونے کے باعث ان میں تصدیق نہیں ہوئی، انھیں بھی الگ کیا جا سکے۔‘’دوسری جانب وہ کمپنیاں جنھیں یہ ڈر ہے کہ ان کے لیے کام کرنے والے ملازمین میں سے کسی کو یہ
وائرس تو نہیں ہے وہ باآسانی اس ٹیسٹ کے ذریعے پتا لگا سکتے ہیں کہ کسے کام پر بلانا ہے اور کسے قرنطنیہ بھیجنا ہے۔‘ٹیسٹوں کی حساسیت کا تناسب۔۔جب بھی کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کی بات کی جاتی ہے تو اکثر فالس پازیٹو (غلطی سے مثبت) اور فالس نیگیٹو (غلطی سے منفی) کی اصطلاحات بھی سامنے آتی ہیں۔رافعہ حیدر نے بتایا کہ فالس نیگیٹو سے مراد ہے کہ جب مریض کا نمونہ صحیح طرح نہ لیا جائے یا اس کی مقدار ضرورت سے کم ہو تو یہ ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس میں غلطی کی گنجائش ہوتی ہے کیونکہ اس ٹیسٹ کی حساسیت 70 فیصد ہے۔تاہم فالس پازیٹو تب آتا ہے جب مشتبہ متاثرہ شخص کے نمونے ترسیل کے دوران یا تو کسی باہر کی چیز سے مل جائیں یا غلطی سے کسی مثبت نمونے کے ذریعے ملاوٹ ہو جائے۔وجیہہ جاوید کے مطابق فالس نیگیٹو نتائج آنے کی وجہ کسی شخص میں وائرس کے وائرل لوڈ کا کم ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مریض میں اس وائرس کی مقدار کم ہے۔ایسے افراد میں اگر اینٹی باڈی ٹیسٹ کیا جائے تو ان کی حساسیت تقریباً 90 فیصد ہوتی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں