لاہور (پی این آئی ) فکسنگ کیس۔۔محمد عامر نے صرف ایک ’نوبال‘کرنے کے عوض کتنی بڑی رقم لی تھی؟ سالوں بعد بڑا انکشاف آگیا۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر نے فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو ٹیم میں واپس نہ لینے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ بڑے میچ فکس کرنے پر 10 کروڑ
روپے تک کھلاڑیوں کو دیے جاتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں ذوالقرنین حیدر نے میچ فکسنگ پربات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اپنے پہلے میچ میں 88 رنز بنا کر عالمی ریکارڈ بنایا، جس کی جگہ گیا تھا وہ کامران اکمل تھے اور وہ مضبوط لابی کا حصہ تھے، اس وقت پنجاب کے 8 کھلاڑیوں کی لابی تھی، یاور سیعد منیجر تھے جنہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر کہا کہ ہم آپ کو واپس بھیج رہے ہیں کیونکہ آپ کو انجری ہے حالانکہ معمولی انجری تھی جو عموماً وکٹ کیپرز کے ساتھ ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ معمولی انجری تھی جس کے بعد میں نے 88 رنز بنائے تھے لیکن میں واپس آیا اور میڈیا کو اپنی انگلی دکھا دی جس سے لوگوں کو سمجھ آگیا کہ معاملہ کیا ہے‘۔سابق وکٹ کیپر کا کہنا تھا کہ اگلے ٹیسٹ میں 7 لڑکے پکڑے گئے جس میں کامران اکمل، محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ وغیرہ پکڑے گئے جس پر میڈیا نے کہا کہ ذوالقرنین حیدر کو اس لیے واپس بھیجا کیونکہ انہوں نے 88 رنز بنائے تھے اور ان کے لیے مسائل کھڑے نہ کرے۔کھلاڑیوں کی فکسنگ سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘عامر نے ایک نو بال کرنے کے لیے 5 ہزار ڈالر لیے تھے، ایک ٹیسٹ میں 8 سے 9 نوبال کرائیں تو 40 ہزار پاؤنڈ آرام سے جیب میں آتے ہیں’۔انکا کہنا تھا کہ ‘وسیم اکرم اکثر پہلی گیند وائیڈ کیا کرتے تھے لیکن اس وقت اتنا ریٹ نہیں تھا کیونکہ ہم مارکیٹ میں رہتے ہیں تو ریٹ کا پتہ ہے، ایک پورا میچ فکس کرنے کے لیے اسوقت پاکستانی 4 کروڑ روپے ملا کرتے تھے۔ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ ‘دبئی میں بکیز سے میں نے پوچھا تھا تو انہوں نے کہا کہ 2010ء میں 4 کروڑ ریٹ تھا اور اب بھارت اور پاکستان کا فائنل یا اسی طرح کا اچھا میچ ہو تو 10 کروڑ روپے ہوتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘جن لوگوں نے میچ فکسنگ کی ہے انکو واپس نہیں لانا چاہیے کیونکہ اتنا ٹیلنٹ ہے کہ انکو دوبارہ لانے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر لانا تھا تو پھر سب کو لاتے۔محمد عامر کی واپسی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘محمد عامر کو شکیل شیخ کا تعاون تھا اس لیے واپس آئے، اگر وہ نہ ہوتے تو عامر بھی کبھی واپس نہ آتے’۔انہوں نے کہا کہ ‘میں نے بورڈ کو سب بتادیا تھا لیکن ہلکی پھلکی انکوائری ہوئی اور مجھے 5 لاکھ جرمانہ ہوا جو ٹھیک فیصلہ تھا کیونکہ میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا تو ڈسپلنری ایکشن ہوا دیگر معاملات میں کلیئر ہوا اور ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی’۔انکا کہنا تھا کہ ‘جسٹس قیوم نے اپنی رپورٹ میں معین خان، انضمام الحق، وسیم اکرم اور دیگر کو کوئی عہدہ نہ دینے کی بات کی تھی لیکن اب سب کے پاس عہدے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں