دنیا کی جمہوریت متحدہ بادشاہت ( یوکے )میں رہنے والے ہر شخص اور ہر شعبہ سے وابستہ بشمول پرندوں اور جانوروں کے حقوق بھی موجود ہیں اور برطانوی قانون میں سب کو یکساں تحفط حاصل ہیں لیکن برطانوی معاشرے میں پاکستانی میڈیا کے صحافیوں کی حالت زار ناقابل بیان ہے دن رات ایک کرکے معاشرے کو باخبر
رکھنے والے صحافی خود جن بے انصافی اور محرومی کا شکار ہو رہے ہیں کبھی کسی نے نظر نہیں ڈالی، یوکے اور یورپ جیسے ترقی یافتہ معاشرے میں بھی بے شمار حقوق سے محروم ہونے کے باوجود بھی صحافی اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیاں سر انجام دے رہےہیں، حلال رزق کے لیے کوشاں پاکستان اور کشمیر کے بیٹے اپنی محنت مزدوری کے بعد کمیونٹی کے مسائل لکھتے، دکھاتے اور اُن کو سامنے لانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ جن اداروں سے یہ مُنسلک ہیں اُن میں بیشتر پاکستان میں موجود صحافی لوگوں کی عزت کی دھجیاں ٹی وی پہ بیٹھ کر اُڑانے والوں کو نہ صرف مراعات بلکہ اعلیٰ عُہدوں اور تنخواہوں سے بھی نوازتے ہیں لیکن ان محنتی قلم کاروں اور رپورٹ بنانے کے لیے اپنا وقت نکال کر اُسے بنانے والوں کو مراعات تو کیا معاوضہ بھی نہیں دیتے، اور جن کے فنکشن یہ صحافی بھائی رپورٹ یا کوریج کرتے ہیں وہ اگر خُدانخواستہ کُچھ دیں تو اُسے بھی بُری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کیابرطانیہ کے ان صحافیوں کے آنے جانے پر اور ان کے سفر پرکوئی لاگت نہیں آتی ہے؟ انکی گاڑیاں کیا پانی پہ چلتی ہیں؟ اور جو وقت دیتے ہیں اُس کی بھی کوئی قیمت نہیں ہماری نظر میں؟ جہاں ہم اتنا بجٹ اپنے فنکشن کا رکھتے ہیں وہاں اُن کو جو اس کی خوبصورتی اور شان میں اضافہ کرتے ہیں اُسے ٹی وی یہ اخبار کی زینت بنا کر ہمیں نمایاں اور ہمارے کام کو ساری دنیا سے متعارف کراتے ہیں لیکن اُن کو کُچھ دیتے کم ظرفی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں موجودہ لاک ڈاؤن اور مشکل لمحات میں ہر کوئی غریب اور مستحق افراد کی مدد میں تو لگا ہوا ہے لیکن کس تنظیم یا رفاعی ادارے نے یہ بھی سوچا ہوکہ ان صحافیوں کے گھرکا چولہا بھی جل رہاہے یا نہیں ؟ کیا ہمیں خیال آیا ان بھائیوں کا کہ پوچھیں آپ کو کسی مدد کی ضرورت تو نہیں لیکن میرا خیال ہے پاکستان اور برطانیہ میں کسی نے بھی ان کے بارے سوچا تک نہیں ہو گا اگرایسا ہے تو پھر کیسے یہ صحافت کا عالمی دن ہوا، مُجھے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے یہ بھی بس کیلنڈر کی ایک تاریخ ہی ہے جس نے آکر چلے جانا ہے ،نہ حقوق کا پتا نہ حل کی خبر، بس ایک دن ہے سو گُزر جائے گا۔ مُجھے اعلیٰ او ارفع صحافتی عُہدوں پہ فائز لوگوں سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ اُن کے پاس شاید نام کے سوا کوئی اختیار ہے بھی نہیں اگر ہوتا تو ایک عام صحافی سفید پوشی کی سی زندگی گُزارنے پہ مجبور نہ ہوتا، اور میڈیا گروپس کے ملازم مالی حالات کی وجہ سے نڈھال نہ ہوتے۔ ہر بار کہتی ہوں اس بار پھر کہتی ہوں بلکہ آج کے دن سوال کرتی ہوں خُدا کے لیے ایک صحافتی فنڈ رکھا جائے جوبوقتِ ضرورت اُن کے کام آ سکے جو کسی وجہ سے جاب سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کسی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں یا جن کو خاص طور پہ اپنی بیٹیوں کی شادی میں مدد درکار ہو تو اُن کی مدد کی جا سکے۔ کسی صحافی کے بیٹے یا بیٹی کو ہر سال اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھیجا جا سکے تا کہ وہ پڑھ کر والدین کے حالات بدل سکے۔ ہر سال قُرعہ اندازی ہو اور ان صحافیوں کو عمرہ یا حج کا موقع مل سکے۔ آخر ہم یہ کیوں نہیں سوچتے اور اگر آپ نہیں سوچتے تو آج میں اس دن اس صحافتی دُنیا سے وابستہ ہوتے ہوئے میں صحافی بھائیوں کو پیشکش کرتی ہوں میرے ساتھ کھڑے ہوں ،میں آپ سب کی مدد اور ساتھ سے ایسا نظام بی ٹی ایم کے پلٹ فارم سے سامنے لاؤں گی جس کو سب سے پہلے فنڈ میں خود کرنے کے کا اعلان کرتی ہوں ۔ جو سب نکات اوپر رکھے ہیں، ہم اُن پہ عمل درآمد کرنے کی کوشش کے ساتھ ایک ایسا نظام رائج کریں گے جو ایک پاکستانی اور کشمیری صحافی کے حقوق کا ترجمان ہو گا۔ ربِ کریم کی مدد اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر سے دُنیا میں اپنی پہچان بنائے گا۔ خُدا ہمیں ایک دوسرے کی عزت کی حفاظت کی تُوفیق عطا کرے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں