اسلام آباد(پی این آئی) توانائی کے شعبے میں تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پاور سیکٹر کو یومیہ ایک ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے اور پاکستانی شہریوں کو خطے میں سب سے مہنگی بجلی فراہم کی جارہی ہے۔پاور سیکٹر میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی
تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ نجی کمپنیوں نے بہتر ٹیرف کیلئے تیل کے غلط اعداد و شمار پیش کیے، 1994کی پاور پالیسی کے تحت 16 کمپنیوں نے 50 ارب 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اور یہ کمپنیاں اب تک 415 ارب روپے منافع کما چکی ہیں۔انکوائری کمیٹی کے مطابق ان کمپنیوں کے سرمایہ کاروں نے شراکت داروں کو 22 گنا منافع ادا کیا۔یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاور پالیسی 2002 کے تحت 2934 میگاواٹ کے پاور پروجیکٹس لگائے گئے جن میں ان کمپنیوں نے 57 ارب 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی۔انکوائری کمیٹی کے مطابق پاور پالیسی 2002 کے تحت کمپنیاں 203 ارب روپے منافع کما چکی ہیں۔اس کے علاوہ پاور پالیسی 2015 کے تحت دو کمپنیوں نے پاور پروجیکٹس لگائے، ایک کمپنی ایک سال کے دوران ہی اپنی سرمایہ کاری پر 71 فیصد منافع کما چکی جبکہ دوسری کمپنی نے ایک سال میں سرمایہ کاری کا 32 فیصد منافع کما لیا۔انکوائری کمیٹی کے مطابق بجلی بنانے والی کمپنیوں نے بجلی بنانے کیلئے تیل کم استعمال کیا مگر ظاہر زیادہ کیا تاکہ بجلی کی قیمت زیادہ ہو۔تیل کی مد میں یہ کمپنیاں گذشتہ 9 سال کے دوران 64 ارب 22 کروڑ روپے سے زائد کما چکی ہیں، یہ کمپنیاں مستقبل میں اسی مد میں 145 ارب 23 کروڑ سے زیادہ وصولی کریں گی۔انکوائری کمیٹی کے مطابق 2013 کے فریم ورک کے تحت بجلی بنانے کے 8 منصوبے لگائے گئے اور 2013 کے فریم ورک کے تحت کمپنیوں کو 6 ارب 33 کروڑ روپے کی زائد ادائیگیاں کی گئیں۔مِس میچ فریکوئنسی کے تحت 2002 سے لے کر اب تک 565 ارب 88 کروڑ روپے کی زائد کی ادائیگیاں کی گئیں۔انکوائری کمیٹی کے مطابق جامشورو پاور پلانٹ کی قیمت 6 لاکھ 60 ہزار ڈالر فی میگا واٹ تھی جبکہ ساہیوال کول پاور پلانٹ کی قیمت 10 لاکھ ڈالر فی میگا واٹ ہے۔یہ بات بھی سامنے آئی کہ 2005 اور 2010 کے دوران بجلی کی پیداواری لاگت میں 148 فیصد اضافہ ہوا، 2007 سے 2019 کے دوران پاور سیکٹر کو 3202 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں، 2007 سے2019تک سبسڈی کی مد میں 2860 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی،لیکویڈیٹی کی مد میں 142 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔انکوائری کمیٹی کے مطابق مالی سال 2019 میں سرکلر ڈیبٹ (گردشی قرضے) میں 465 ارب روپے کا اضافہ ہوا، 2007 میں سرکاری قرضہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 52 فیصد تھا، 2019 میں حکومتی قرضہ جی ڈی پی کے 85 فیصد تک بڑھ گیا۔انکوائری کمیٹی نے پاور پلانٹس کے لیے اپنی سفارشات پیش کردی ہیں۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ نجی بجلی گھروں کو کی گئی زیادہ ادائیگیاں ریکور کی جائیں۔یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ بجلی گھروں کا منافع ڈالرز کی بجائے روپے میں کیا جائے۔انکوائری کمیٹی کا کہنا ہے کہ سفارشات پر عمل سے مستقبل میں 4700 ارب روپے کی بچت ہوگی۔کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدے ‘ٹیک اینڈ پے’ میں تبدیل کیے جائیں اس سے 150 سے 200 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں