اسلام آباد(پی این آئی)عالمی منڈی میں گندم کی قیمتوں میں اضافے جبکہ پاکستان میں کمی اور کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال کے پیش نظر نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی گندم کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے گندم کی بین الاقوامی سمگلنگ اور غیر قانونی تجارت
کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔اس صورت حال سے نمٹنے اور گندم کی سمگلنگ روکنے کے لیے حکومت نے اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت ایک آرڈیننس بھی جاری کر رہی ہے جس کے تحت نہ صرف گندم کی بین الصوبائی بلکہ بین الاقوامی سمگلنگ روکنے کے لیے کسٹمز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پابند بنایا جائے گا جبکہ ذمہ دار افراد کو سزا بھی دی جا سکے گی۔پاکستان میں رواں سال گندم کا پیداواری ہدف 27 اعشاریہ 3 ملین ٹن رکھا گیا ہے۔ امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ موسمی تغیرات کے باعث 9 اعشاریہ 2 ملین ہیکٹرز رقبے سے ساڑھے 25 سے ساڑھے 26 ملین ٹن پیداوار ہوگی۔پنجاب سے 19 اعشاریہ 66، سندھ سے 3 اعشاریہ 8، خیبر پختونخوا سے 2 اعشاریہ 57 جبکہ بلوچستان سے ایک ملین ٹن گندم کی پیدوار متوقع ہے۔اگر اس پیداواری تناسب کو دیکھیں تو گندم کی سمگلنگ کا روٹ اور طریقہ کار خود بخود سمجھ آ جاتا ہے۔وزارت غذائی تحفظ کے سیکرٹری عمر حمید خان نے ‘اردو نیوز’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان میں عموماً سندھ اور پنجاب میں گندم کی کٹائی جلد شروع ہو جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کٹائی قدرے تاخیر سے ہوتی ہے۔ اس دوران پنجاب سے گندم خیبر پختونخوا اور بلوچستان سمگل ہوتی ہے۔ان کے مطابق ‘عموماً پنجاب سے ان صوبوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم آتی ہے لیکن جب ضرورت سے زائد گندم کی ترسیل شروع ہوتی ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گندم کہاں جا رہی ہے۔’ ‘پاکستان سے زیادہ تر گندم افغانستان سمگل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے اگر عالمی مارکیٹ میں گندم مہنگی اور پاکستان میں اس کے نرخ کم ہیں تو سمگلرز مقامی مارکیٹ سے کم ریٹ پر اسے خرید کر مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ‘مغربی سرحد پر سمگلنگ تو ہوتی ہے لیکن اس وقت ایران میں جو صورت حال ہے اس میں جب ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہوگا تو وہ بھی یقیناً پاکستان کی طرف ہی دیکھیں گے ایسے میں سمگلنگ کے امکانات اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔’حال ہی میں وزارت غذائی تحفظ سے تبدیل کیے گئے سیکرٹری ہاشم پوپلزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ‘پنجاب پاکستان کی کل پیداوار کی 80 فیصد گندم اگاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی یومیہ طلب 10 ہزار ٹن ہے اور وہ بھی اٹک کے راستے پنجاب سے ہی پوری ہوتی ہے۔’ ‘اسی طرح بلوچستان کو بھی گندم کی ترسیل پنجاب سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد چمن، طورخم اور قبائلی علاقوں کے ذریعے سے گندم افغانستان سمگل کی جاتی ہے۔’انھوں نے بتایا کہ ‘اس وقت جو صورت حال ہے اس سے لگ یہی رہا ہے کہ بات افغانستان سے آگے نکل گئی ہے۔ کورونا کی وجہ وسطی ایشیائی ممالک میں بھی گندم کی قلت ہوگی اور وہاں پر گندم کی ضرورت افغانستان سے پوری کی جا سکتی ہے لیکن افغانستان کی اپنی ضروریات کا 60 فیصد قازقستان اور 40 فیصد پاکستان سے پورا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ نظر رکھی جائے کہ افغانستان کتنی گندم جا رہی ہے۔ اگر وہاں طے شدہ مقدار سے زیادہ گندم جا رہی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ سے سستی گندم خرید کر مہنگی بیچی جا رہی ہے۔ عالمی اور مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں یہ فرق ہی سمگلنگ یا غیر قانونی تجارت کی وجہ ہے۔یاد رہے کہ ماضی میں بھی پاکستان سے افغانستان کے راستے تاجکستان گندم سمگل ہونے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان نیوز انٹرنیشنل (پی این آئی) قابل اعتبار خبروں کا بین الاقوامی ادارہ ہے جو 23 مارچ 2018 کو قائم کیا گیا، تھوڑے عرصے میں پی این آئی نے دنیا بھر میں اردو پڑہنے، لکھنے اور بولنے والے قارئین میں اپنی جگہ بنا لی، پی این آئی کا انتظام اردو صحافت کے سینئر صحافیوں کے ہاتھ میں ہے، ان کے ساتھ ایک پروفیشنل اور محنتی ٹیم ہے جو 24 گھنٹے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے متحرک رہتی ہے، پی این آئی کا موٹو درست، بروقت اور جامع خبر ہے، پی این آئی کے قارئین کے لیے خبریں، تصاویر اور ویڈیوز انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کی جاتی ہیں، خبروں کے متن میں ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتا جاتا ہے جو نا مناسب ہوں اور جو آپ کی طبیعت پر گراں گذریں، پی این آئی کا مقصد آپ تک ہر واقعہ کی خبر پہنچانا، اس کے پیش منظر اور پس منظر سے بر وقت آگاہ کرنا اور پھر اس کے فالو اپ پر نظر رکھنا ہے تا کہ آپ کو حالات حاضرہ سے صرف آگاہی نہیں بلکہ مکمل آگاہی حاصل ہو، آپ بھی پی این آئی کا دست و بازو بنیں، اس کا پیج لائیک کریں، اس کی خبریں، تصویریں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں شیئر کریں، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، ایڈیٹر
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں