اسلام آباد(پی این آئی)پاکستان تحریک انصاف کےسینئررہنماجہانگیرخان ترین نےکہاہےکہ میرے بارے میں غلط خبریں پھیلائی جا رہی ہیں،اگر میرے ساتھ کچھ غلط بھی ہو جائے تو میں غلطی کبھی نہیں کروں گا،تحریک انصاف میں آدھے لوگ میرے خلاف ہونے کی بنیادی وجہ آئڈیالوجی کا فرق ہے ،جو بات پارٹی اور
عمران خان کے لئے بہتر ہوتی ہے وہ میں نے ہمیشہ کہی اور آئندہ بھی بولتا رہوں گا ، اسد عمر اور آئی سی سی کے کسی ایک ممبر سے میں نےکبھی چینی کے کاروبار بارے بات نہیں کی،اسد عمر خود فیصلہ کرنے والے آدمی ہیں،ان پر کون اثر انداز ہو سکتا ہے؟اسد عمر کی وزارت خزانہ میری وجہ سے نہیں گئی،ایکسپورٹ کرنے سے پاکستان میں چینی کی شارٹیج کبھی نہیں ہوئی،تحقیقاتی رپورٹ لکھنے والے لوگ ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے ہیں جنہیں مارکیٹ کا پتا ہی نہیں ہے۔نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں سینئر صحافی ندیم ملک کو انٹرویو دیتے ہوئے جہانگیر خان ترین نے کہا کہ میرے بارے میں غلط خبریں پھیلائی جا رہی ہیں،8فیصد گنا خود کاشت کرتا ہوں اور باقی92فیصد لوگوں سے خریدتا ہوں،کاٹن کی تحقیق کے لئے باہر کی کمپنیوں کو پاکستان لانا چاہئے،گنے کی قیمت ریگولیٹڈ ہے،حکومتیں گنے کی قیمتیں کہہ دیتی ہیں 180 یا 190روپے میں خریدیں،کوئی اور شعبہ نہیں ہے جہاں قیمت ریگولیٹڈ ہے،فلور ملز کو آپ نہیں کہتے کہ گندم آپ نے حکومت کی قیمت پر خریدنا ہے ،فلور ملز اپنی مرضی کی قیمت پر مارکیٹ سے گندم خریدتی ہیں،صرف گنے کے اوپر یہ پابندی ہے،میری تجویز بڑی سادہ ہے ،اس انڈسٹری کو فری کر دیں ،گنا اپنی مرضی سے خریدیں اور چینی اپنی مرضی سے بچیں،نہ کوئی آپ سے سبسڈی مانگے گا اور نہ ہی کچھ اور کہے گا ۔انہوں نے کہا کہ میں سیاست میں آنے سے دس سال پہلے سے چینی کے بزنس میں ہوں ،1992میں پہلی شوگر مل لگائی جبکہ 2002 میں سیاست میں آیا تھا،میری ملوں سے ملک کی بیس فیصد چینی بنتی ہے،آئی سی سی کے اجلاس میں شوگر ملز کا نمائندہ بٹھانے کی کبھی کوئی بات نہیں ہوئی جبکہ اسد عمر اور آئی سی سی کے کسی ایک ممبر سے میں نےکبھی چینی کے کاروبار بارے بات نہیں ہوئی،میں ایک سمجھدار آدمی ہوں اور اپنے آپ کو بڑا محتاط رکھتا ہوں ،مارکیٹ میں چینی کا میرا بیس فیصد شیئر ضرور ہے،میری چھے ملیں ہیں لیکن اس ملک میں 74 اور بھی شوگر ملیں ہیں ،اُن سے بھی جا کر پوچھیں ،میں ایسوسی ایشن نہیں چلاتا ،ایسوسی ایشن چلانے والے آزاد لوگ ہیں جو الیکشن کے ذریعے آتے ہیں،اُن کو بھی ٹی وی پر بلا کر پوچھ لیں ،اس رپورٹ کی کوئی چیز میرے اوپر نہیں آ رہی،میں نےآج کین کمشنر سے پوچھا ہے ، ایک ملین ٹن کا صرف پنجاب میں سٹاک موجود تھا جبکہ دوسرے صوبوں میں ڈھائی تین لاکھ ٹن کا سٹاک موجود تھا،اس طرح جب سیزن شروع ہوا تو ون پوائنٹ تھری ملین کا سٹاک موجود تھا اور جب سیزن ختم ہوا تو پنجاب کے پاس ساڑھے چار لاکھ کا سٹاک موجود تھا لہذا ایکسپورٹ کرنے سے پاکستان میں چینی کی شارٹیج کبھی نہیں ہوئی۔جہانگیر خان ترین کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی رپورٹ لکھنے والے لوگ ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے ہیں جنہیں مارکیٹ کا پتا ہی نہیں ہے،اس رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے،اس رپورٹ میں اُنہوں نے ایک ٹیبل بناتے ہوئے صرف یہ لکھ دیا ہے کہ ان لوگوں نے سبسڈی حاصل کی ،میرا نام میڈیا میں زیادہ فلیش ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سارے لوگ میرے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایف آئی کی رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ پچھلے پانچ سال میں چینی پر ربیٹ دیا گیا ،اس رپورٹ میں ن لیگ کی حکومت کا بھی ذکر ہے،ن لیگ کی حکومت میں بھی ربیٹ دیا گیا ،میں نے ن لیگ کی حکومت میں ڈھائی ارب کا ربیٹ لیا جبکہ اپنی حکومت میں 56 کروڑ کا ربیٹ لیا ،میں نے پچھلے پانچ سال میں صرف ٹیکس کی مد میں 23 ارب روپیہ حکومت پاکستان کو ٹیکس دیا ہے،جتنے میرے بزنس کا سائز ہے اور جتنا میں ٹیکس دیتا ہوں اُس حساب سے یہ کچھ نہیں ہے،یہ پرافٹ نہیں ہوتا کیونکہ باہر چینی سستی بیچنی پڑتی ہے کیونکہ اس زمانے میں دنیا کی مارکیٹ ڈاؤن تھی اور ڈالر 104 روپے میں رکا ہوا تھا ،تو ربیٹ دیا جاتا ہے کہ آپ کو ایکسپورٹ قیمت کو
مقامی مارکیٹ میں میچ کر دیں اس میں کوئی ایکسٹرا پرافٹ نہیں ہوتا۔ جہانگیر خان ترین نے کہا کہ پارٹی میں آدھے لوگ میرے خلاف ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کیونکہ آئڈیالوجی کا فرق ہے ،2013کے الیکشن ہوئےتو ہم بری طرح ہار گئے،دھاندلی ،دھاندلی کا ہم نے شور کیا اور دھاندلی ہوئی بھی مگر وہ صرف چند سیٹوں پر ہوئی،جس پر میں خان صاحب کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ خان صاحب ہم نے اگلا الیکشن جیتنا ہے ،جس طرح ہم نے پچھلا الیکشن لڑا ہے اور لوگوں کو ٹکٹ دیئے ہیں اگر 2018 کا الیکشن بھی اُسی طرح لڑا گیا تو پھر ہم نہیں جیت سکتے ، جس پر عمران خان نے کہا کہ مطلب کیا ہے تمہارا؟میں نے کہا کہ یہ پنجاب کا ڈیٹا ہے،2013 میں ہم جو پچاس فیصد سیٹیں ہارے اس میں ہم دوسرے نمبر پر بھی نہیں آئے،ہم ٹیبل پرہی نہیں تھے،تیسرے،چوتھےاور پانچویں نمبر پرتھے،66فیصد حلقے ایسے تھے جہاں ہم نے بیس فیصد ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکے،اس کا مطلب کیا ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے امیدوار غلط تھے ،ہم نے اپنے امیدوار تبدیل کرنے ہیں،پنجاب میں سیاسی خاندان ہیں ،جب تک ہم سیاسی خاندانوں کو لے کر نہیں آئیں گے آپ وزیر اعظم نہیں بن سکتے،میری اس بات سے پارٹی میں بہت بڑا اختلاف ہوا اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ جہانگیر ترین پارٹی ٹیک اوور کرتا ہے اور اپنے بندے تحریک انصاف میں لے آیا ہے حالانکہ وہ میرے اپنے لوگ نہیں ہیں سیاسی خاندانوں کے اہم افراد ہیں ۔جہانگیر خان ترین نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں 67 فیصد الیکٹڈ نشستیں جیتے جن میں سے 80 فیصد لوگ پولیٹیکل فیملیز سے ہیں اور وہ کتنے لوگ ہیں جو پولیٹیکل فیملیز سے بھی ہیں اور 2013 کے بعد پارٹی میں شامل ہوۓ وہ ساٹھ فیصد ہیں جن میں سے زیادہ تر
وہ لوگ ہیں جن کو میں پارٹی میں لایا ۔پارٹی میں میری مخالفت کی بنیادی وجہ یہی ہے۔جہانگیر خان ترین نے کہا کہ جو میرے دل میں ہوتا ہے وہ میں ہمیشہ کھل کر بولتا ہوں،جو بات پارٹی اور عمران خان کے لئے بہتر ہوتی ہے وہ میں نے ہمیشہ بولی ہے اور آئندہ بھی بولتا رہوں گا ،میں نے خان صاحب کو مثال دی ہے کہ ایک ایک موتی چن کر ہمیں ہار بنانا پڑتا ہے جو وزیر اعظم کے گلے میں ڈلتا ہے،یہ حلقہ جاتی سیاست ہے ،اگر یہاں صدارتی نظام ہوتا تو پھر ہم کسی اور طریقے سے ڈیل کرتے۔ایک سوال کے جواب میں جہانگیر خان ترین نے کہا کہ اسد عمر کی وزارت خزانہ میری وجہ سے نہیں گئی،خان صاحب کافی عرصہ سے دیکھ رہے تھے کہ جو بھی اِن کو کہتے تھے وہ فیصلے نہیں کر رہے تھے،آج بھی کابینہ میں تبدیلیاں ہوئی ہیں اور یہ وزیر اعظم کی اپنی صوابدید ہے،وہ اپنی حکومت کو جس طرح چلانا چاہتے ہیں چلائیں ،میں پہلے بھی اُن کے ساتھ کھڑا تھا اورآئندہ بھی کھڑا رہوں گا ،میں ایک لائل آدمی ہوں ،اگر میرے ساتھ کچھ غلط بھی ہو جائے تو میں غلطی کبھی نہیں کروں گا،عمران خان کے ساتھ جو قریبی تعلق تھا وہ اب نہیں رہا، سچی بات ہے، مگر میں پھر بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔جہانگیر ترین نے وزیر اعظم سے دوری کی وجہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو قرار دیا اور کہا کہ ان کا 6 مہینے پہلے اعظم خان سے اختلاف شروع ہوگیا،اعظم خان سے اختلاف اصلاحات کے معاملے پر ہوا،میں نے خان صاحب کو کہا کہ ہم اس ملک کو تھوڑا سا تبدیل کرنے نہیں آئے بلکہ ٹرانسفارم کرنے آئے ہیں، وزیر اعظم نے میری اس بات سے اتفاق کیا اور پوچھا کہ ایسا کیسے ہوگا؟ میں نےوزیراعظم کو بتایا کہ ہم آپ کےانڈرایک اصلاحاتی کمیٹی بنائیں گے جو باضابطہ طور پر کام کرے گی،ہمیں بیوروکریسی کے چکر سے نکلنا پڑے گا، وزیر اعظم نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا لیکن اعظم خان نےکہا کہ حکومت تو ہم چلاتے ہیں،وزیر اعظم آفس میں سب کچھ میرے ذریعے ہوتا ہے، آپ متبادل پاور بنا رہے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں