اسلام آباد (پی این آئی) شوگر ملز مالکان نے چینی کے ایکس مل ریٹ 13روپے کلو بڑھا دیئے ہیں۔ 3دسمبر 2019ءکو جب موجودہ کرشننگ سیزن شروع ہوا تو ایکس مل ریٹ 63روپے کلو تھا۔ چینی کی نئی پیداوار آنے سے اقتصادی قانون کے مطابق چینی کا ایکس مل ریٹ کم ہونا چاہئے تھا مگر ہفتہ 14مارچ کو شوگر ملز
مالکان نے ایکا کر کے ایکس مل ریٹ 76روپے تک پہنچا دیا جو 13مارچ 2020ءجمعہ کے روز 74روپے کلو تھا۔ جس وقت ایکس مل ریٹ 78روپے کلو ہوا تھا تو اپوزیشن کے سخت احتجاج اور صارفین کے دباؤ کے نتیجے میں شوگر ذخیرہ کرنیوالوں کیلئے انکوائری کمیٹی بنائی گئی جو متعدد ہفتے گزرنے کے باوجود شوگر ان کے نام قوم کو نہیں بتا سکی۔ ان میں سے ایک کی چھ ملیں ملکی پیداوار کا 22سے 23فیصد چینی بنا رہے ہیں کیونکہ انکی ملیں سب سے زیادہ پیداوار والی جدید ترین ہیں‘ باقی ملک کے اندر 80سے زائد شوگر ملیں چھوٹی چھوٹی ہیں۔ 6شوگر ملوں کے مالک پچاس کلو والے 2کروڑ بیگ بناتے ہیں جبکہ ایک وفاقی وزیر کی شوگر مل ایک کروڑ بیگ چینی پیدا کر رہی ہے۔ جمعہ کو ہول سیل قیمت 74روپے تھی مگر چوبیس گھنٹوں میں شوگر ملز مالکان نے ہفتے کو 2روپے کلو بڑھا کر 76روپے کر دی۔ہفتہ کو ہول سیل قیمت 79روپے تک چلی گئی اور ریٹیل قیمت 82روپے کلو ہو گئی ہے۔ پنجاب شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیخ عامر وحید نے ان قیمتوں کی تصدیق کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کالا دھن پہلے رئیل اسٹیٹ میں لگایا جاتا تھا اب شوگر کے بزنس میں لگایا جا رہا ہے کیونکہ جون 2020ءمیں شوگر کی ایڈوانس بکنگ 85روپے کلو چند ہفتے پہلے مقرر کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ شوگر پر تین روپے ساٹھ پیسے سیلز ٹیکس مہینہ دو مہینہ تین مہینہ پہلے نہیں لگایا گیا بلکہ یہ جولائی 2019ءمیں لگا تھا۔شیخ عامر وحید کے مطابق پاکستان میں چینی کی قومی ضرورت کم و بیش 50سے 52لاکھ ٹن ہے جبکہ پیداوار امسال 48سے 50لاکھ ٹن ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ذریعے ابھی سے دو چار لاکھ ٹن چینی درآمد کر لے ورنہ نومبر کے مہینے میں چینی کا بحران پیدا ہو جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ بھی پتہ چلانا چاہئے کہ سیزن شروع ہونے سے پہلے پاکستان سے چینی برآمد کرنے کی اجازت کس کو دی گئی اور کس نے دی؟ بینکوں سے رپورٹ لینی چاہئے کہ کس نے کروڑوں اربوں کی رقم موجودہ شوگر سیزن میں نکلوائی اور اس سے پوچھا جائے کہ وہ رقم جنوبی پنجاب کی کس کس مل سے چینی خرید کر ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال کی۔ یہ بھی پتہ کرایا جائے کہ کمیٹی کے بننے کے بعد کس شوگر ملز سے کتنے لاکھ ٹن چینی کسی دوسری جگہ منتقل کی گئی۔
پاکستان نیوز انٹرنیشنل (پی این آئی) قابل اعتبار خبروں کا بین الاقوامی ادارہ ہے جو 23 مارچ 2018 کو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں قائم کیا گیا، تھوڑے عرصے میں پی این آئی نے دنیا بھر میں اردو پڑہنے، لکھنے اور بولنے والے قارئین میں اپنی جگہ بنا لی، پی این آئی کا انتظام اردو صحافت کے سینئر صحافیوں کے ہاتھ میں ہے، ان کے ساتھ ایک پروفیشنل اور محنتی ٹیم ہے جو 24 گھنٹے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے متحرک رہتی ہے، پی این آئی کا موٹو درست اور بروقت اور جامع خبر ہے، پی این آئی کے قارئین کے لیے خبریں، تصاویر اور ویڈیوز انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کی جاتی ہیں، خبروں کے متن میں ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتا جاتا ہے جو نا مناسب ہوں اور جو آپ کی طبیعت پر گراں گذریں، پی این آئی کا مقصد آپ تک ہر واقعہ کی خبر پہنچانا، اس کے پیش منظر اور پس منظر سے بر وقت آگاہ کرنا اور پھر اس کے فالو اپ پر نظر رکھنا ہے تا کہ آپ کو حالات حاضرہ سے صرف آگاہی نہیں بلکہ مکمل آگاہی حاصل ہو، آپ بھی پی این آئی کا دست و بازو بنیں، اس کا پیج لائیک کریں، اس کی خبریں، تصویریں اپنے دوستوں اور رابطہ کاروں میں شیئر کریں، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، ایڈیٹر
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں